شوکت علی اور شفیق سلیمی
گزشتہ ایک ڈیڑھ برس سے کووڈ 19کی وجہ سے خلقِ خدا پر بالعموم اور فنونِ لطیفہ سے متعلق لوگوں پر بالخصوص بہت امتحانی وقت چل رہا ہے کہ شائد ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہو جب کسی ہنر مند کی رحلت کی خبر نہ آئی ہو اور بعض اوقات تو یہ رخصتی ایک ایسی شکل اختیار کر جاتی ہے کہ ابھی ایک کی تدفین ختم نہیں ہوتی اور دوسری قبر کی کھدائی شروع ہوجاتی ہے۔
جمعہ دو اپریل کی صبح برادرم جلیل عالی کی طرف سے اطلاع ملی کہ اُنکے بھائی اور ہم سب کے محبوب دوست اور عمدہ شاعر شفیق سلیمی اب ہم میں نہیں رہے اور اس کے چند گھنٹے بعد ہی پی ٹی وی پر لوک موسیقی کے ایک بہت بڑے نام شوکت علی کی وفات کی پٹی چلنا شروع ہوگئی۔ دونوں ہی جانے والے اپنے اپنے شعبے کے نامور لوگ تو تھے ہی مگر اُنکے ساتھ ذاتی حوالوں کا دورانیہ بھی کم و بیش نصف صدی کا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد ہمارے حصے میں جو تین بڑے لوک فنکار آئے وہ عالم لوہار، عنائت حسین بھٹی اور طفیل نیازی ہی تھے جن کے بعد اگرچہ علّن فقیر، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، صنم ماروی، سائیں ظہور، شازیہ خشک، محمد جمن، مائی بھاگی، صادق اقبال، مستانہ، پروانہ، رضیہ بلوچ، پٹھانے خان، اقبال باہو، حامد علی بیلا اور عارف لوہار نے بھی بڑا نام کمایا مگر جن تین فنکاروں نے لوک موسیقی کے علم کو سب سے زیادہ بلند کیے رکھا وہ عابدہ پروین، ریشماں اور شوکت علی مرحوم ہی کے نام نامی ہیں شوکت علی فطری طور پر اُونچے سُروں میں گانا زیادہ پسند کرتا تھا اور آواز کی غیر معمولی Rangeکی وجہ سے اُس پر اس طرح کے گانے سجتے بھی خوب تھے۔
موسیقی کی بنیاد پر اُسے گورنمنٹ کالج جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلے کا موقع بھی مل گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی ذات میں ایک ایسی خوداعتمادی پیدا ہوگئی کہ وہ ہر طرح کی محفل میں نہ صرف آسانی سے فِٹ ہوجاتا تھا بلکہ اپنی ڈاؤن ٹو اَرتھ اور مجلسی طبیعت کے باعث زیادہ تر محفلوں کی جان بھی بن جاتا تھا۔ اُس کے حلقہ، احباب میں موسیقی سے وابستہ لوگوں کے ساتھ ساتھ ادب، ڈرامہ، اسپورٹس اور شوبز غرضیکہ ہر طرح کے لوگ شامل تھے اور اُس کے سامعین میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کی محفل میں بیٹھ سکنا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتا تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے عوامی سطح پر اس کی شہرت کا آغاز خلیل احمد مرحوم کے ترتیب دیے ہوئے ایک قومی ترانے "ساتھیومجاہدو" سے ہوا تھا۔ جس آسانی سے اُس نے اتنے اُونچے سُروں میں یہ لہو گرما دینے والا ترانہ گایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ستر کی دہائی میں میری پنجاب آرٹ کونسل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ی اور آرٹسٹس ایکوئٹی کی تشکیل کے دوران اُس سے ملاقاتوں میں باقاعدگی پیدا ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ اپنے ساتھی اور بالخصوص کم آمدنی والے طبقے کے حقوق اور ان کی بہتری کے لیے کس قدر فعال اور پُرجوش تھا۔
اسی طرح صوفیا کی شاعری کو جس صحت اور حسنِ انتخاب کے ساتھ اُس نے گایا اس کی مثال بھی کم کم ملتی ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے اُسے میاں محمدکے کچھ ایسے دوہڑے بھی یاد تھے جو وہ صرف اہلِ ذوق کی محفلوں میں ہی سنایا کرتا تھا کہ اُن کی معنویت کی گہرائی تک پہنچنا عام معتقدین کے بس کی بات نہیں تھی اُس کی حسِ مزاح بھی بہت اچھی تھی ایک محفل میں ایک نوجوان گلوکار اُس کے انداز میں گانے کی کوشش کررہا تھا اُس نے اسٹیج پر آتے ہی ایک بہت زوردار اور بلند آہنگ تان لگائی جس پر شوکت نے مسکرا کر اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے دوست سے کہا "یہ تو شروع ہی پانچویں کالے سے ہوا ہے جائے گا کہاں؟ "۔
احمد ندیم قاسمی صاحب کی ایک غزل "میں تو دل میں ترے قدموں کے نشاں تک دیکھوں " وہ جس انداز اور مزے سے گاتا تھا وہ بہت کم باقاعدہ غزل گانے والوں کو بھی نصیب ہوا ہے چند برس قبل وینکوور کینیڈاجانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کی سکھ برادری میں اس کی مقبولیت دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ کم و بیش ہر ملنے والے نے اُس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور سلام بھیجا اسی طرح بھارتی پنجاب میں بھی اُس کے مدّاحین شمار سے باہر تھے۔
برادرم گروندر سنگھ کوہلی کی بیٹی کی شادی میں مشہور فوک سنگر سریندر کور کی بیٹی گانے کے لیے آئی ہوئی تھی وہاں بھی جس پاکستانی فوک سنگر کا سب سے زیادہ ذکر ہوا وہ شوکت علی ہی تھا۔ وہ خاصے عرصے سے علیل چلا آرہا تھا اور غالباً پنجاب حکومت نے اُس کے علاج معالجے کے لیے کچھ امداد وغیرہ بھی دی تھی مگر اطلاعات کے مطابق اُس کو جس مسلسل اور سنجیدہ علاج کی ضرورت تھی وہ ا ُسے مہیا نہیں ہوسکا اور بالآخر بیماری کے تیسرے حملے میں وہ ہمت ہار گیا۔ فی الوقت پاپ میوزک سے قطع نظر لوک، غزل گائیکی اور کلاسیکل میوزک سے جو سلوک روا رکھا جارہا ہے اور جس تیزی سے اُن کی دیکھ بھال سے متعلق رہے سہے اداروں کو بھی بند یا غیر فعال کیا جارہا ہے، شوکت علی کی رحلت اسی ماحول میں ایک الارم کا سا درجہ رکھتی ہے کہ "دگر دانائے راز آئد نہ آئد" کی طرح اس طرح کے غیر معمولی فن کار بھی روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
دیکھا گیا ہے کہ بعض شعر شہرت کے حوالے سے اپنے شاعروں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور اُن کی رعائت سے پوچھا جاتاہے کہ یہ کس کا شعر ہے ہمارے مرحوم بھائی اور دوست شفیق سلیمی کا یہ شعر بھی کم و بیش اس نوعیت کا ہوچکا ہے کہ
بے نام دیاروں کا سفر کیسا لگا ہے
اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے
سلیمی مرحوم گزشتہ چند برسوں سے ابوظہبی میں طویل ملازمت کا عرصہ گزارنے کے بعد میرے تقریباً ہمسائے میں مقیم تھے، اُن سے تعارف کی بنیاد اور وجہ محمد جلیل عَالی تھے جو اُن کے برادرِ خورد اور میرے ایم اے اُردو کے کلاس فیلو تھے اُن کی دوسری وجہ شہرت دوبئی کے پہلے صاحبِ دیوان عرب نژاد اُردو شاعر زبیر فاروق تھے جن کے وہ باقاعدہ سے بھی کچھ زیادہ استاد تھے اور بقول شخصے زبیر فاروق کے متعدد دوادین کا کوئی بھی شعر ایسا نہیں جو ان کی نگہِ اصلاح پسند سے نہ گزرا ہو مدتوں عرب امارات میں ہونے والے تقریباً ہر مشاعرے میں شفیق سلیمی کسی نہ کسی حوالے سے ہمارے میزبان ہوا کرتے تھے 1990ء کا اُن کا پہلا مجموعہ کلام "تمازت" اور 2009ء میں دوسرا "تپش"کے نام سے شایع ہوا اب دونوں ناموں میں درجہ حرارت کے حوالے سے جس گرمی کا تعلق ہے اُسے ابوظہبی سے جوڑا جائے یا شاعر کی وارداتِ قلبیہ سے یہ اپنی جگہ پر ایک بہت اُلجھا ہوا سوال ہے جس کی تفہیم کے لیے ہم اُن کے ہی چند اشعار سے امداد طلب ہوتے ہیں۔
یہ ہوتا تو ہے لیکن کب یہ ہوگا
قبائے زر کا لیرو لیر ہونا
………
تلاشِ رزق میں نکلا ہوا ہوں
وگرنہ کون گھر کو چھوڑتا ہے
………
بے نام دیاروں سے ہم لوگ بھی ہو آئے
کچھ درد تھے چُن لائے کچھ اشک تھے رو آئے