مہمان
اگلے وقت میں گھر میں مہمان کی آمد کو اللہ کی رحمت تصور کیا جاتا تھا، ماضی قریب میں بھی جب تک جائنٹ فیملی کی روایت مستحکم تھی خود ہماری نسل نے اس کا عملی نمونہ دیکھا ہے۔
شادی کی بیشتر تقریبات شادی والے گھر کی گلی یا کسی نزدیکی کھلی جگہ پر ٹینٹ لگا کر ادا کی جاتی تھیں اور ان میں شرکت کے لیے آنے والوں کے لیے محلے کے سارے گھر میزبان بن جایا کرتے تھے، سارا محلہ مل کراُن کے سونے کی جگہ، چارپائیوں اور بستروں کا انتظام کرتا تھا اُن کے باہر کی طرف کھلنے والے کمرے جنھیں عام طور پر بیٹھک کہا جاتا ہے باراتیوں کو بٹھانے اور کھانا کھلانے کے لیے کھول دیے جاتے تھے اور متعلقہ گھر کے ساتھ ساتھ محلے کے سارے نوجوان رضاکارانہ طور پر اُن کی خدمت پر مامور ہوتے تھے، پھر یوں ہوا کہ
گھٹی دلوں کی محبت تو شہر بڑھنے لگا
مٹے جو گھر تو ہویدا ہوئے مکاں کیا کیا
مہمانداری کا یہ کلچر بالکل ختم تو نہیں ہوا مگر اب اس کا دائرہ بے حد محدود ہوگیا ہے، زیادہ تر گھروں میں مہمان کے لیے تو کیا ایک دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھنا اور توجہ سے کسی کی بات سننا بھی دشوار ہوگیا ہے کہ ہر آدمی اپنی خودساختہ مصروفیات اور موبائل کے دائرے میں پاگلوں کی طرح گھومتا جا رہا ہے۔ احباب کی وہ محفلیں جو صرف ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے کم و بیش ہر گھر میں جما کرتی تھیں اب خیال و خواب ہوتی جارہی ہیں کہ بلا مقصد کسی سے ملنے کے لیے جانا اب تضیع اوقات سمجھا جاتا ہے، اس صورتِ حال پر اسلم کولسری مرحوم کا یہ شعر کیا کمال کا ہے کہ
کُھل کے بیٹھو کہ ملنے آیا ہوں
میں کسی کام سے نہیں آیا
ایسے میں اگر کہیں کوئی ایسی محفل مل جائے جہاں لوگ ایک دوسرے سے باتیں کرنے کے ساتھ بار بار گھڑی کی طرف نہ دیکھیں اور کچھ دیر کے لیے صرف اُس محفل کے ہوجائیں تو ایک احساس بار بار دامن گیر ہوتا ہے کہ ہم کتنی تیزی سے انسان سے روبوٹ بنتے جارہے ہیں اور مل کر کھانا کھانے کے دوران بھی ہماری تنہائی گھٹنے کے بجائے بڑھتی رہتی ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ محفل سے اٹھنے کو جی نہ چاہے اور وقت کا اتنی تیزی سے گزرنا اچھا نہ لگے۔
خوش قسمتی سے میرا حلقہ احباب شروع سے ایسا رہا ہے کہ محفل بازی کی کوئی نہ کوئی صورت نکلتی ہی رہتی ہے، اب عمر کے ڈھلنے اور بہت سے دوستوں کے بچھڑ جانے کے باعث درمیانی وقفے پہلے سے کچھ طویل ضرور ہوئے ہیں مگر خدا خوش رکھے اُن عزیز مہمانوں کو جو دوسرے شہروں یا ملکوں سے تشریف لاکر اس کی تجدید کا بندوبست کرتے رہتے ہیں، ایسے ہی دو قیمتی مہمان اور علیحدہ علیحدہ ملکوں یعنی برطانیہ اور ترکی سے آکر ان دنوں ہمارے شہر اور دلوں کی رونق بڑھا رہے ہیں اور اُن کی معرفت اس طرح کی محفلوں کے احیا کے مواقعے نکل رہے ہیں جہاں اس شعر کے معنی بدل جاتے ہیں کہ
آپس کی کسی بات کا ملتا ہی نہیں وقت
ہر بار یہ کہتے ہیں کہ بیٹھیں گے کسی دن!
آسمان بیلن اوز جان اور دردانہ انصاری ہماری دو مہمان خواتین اپنی اپنی جگہ پر "غیر معمولی " کہی جاسکتی ہیں کہ دونوں کی حاصل کردہ کامیابیاں اپنی مثال آپ ہیں۔ دردانہ انصاری 43 برس قبل پاکستان سے لندن گئی تھیں، 22برس انھوں نے بی بی سی کی اُردو اور انگلش سروس میں بطور پروڈیوسر اور اینکر پرسن ایسی شاندار صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا کہ حکومتِ برطانیہ نے نہ صرف انھیں MBE جیسے معتبر ایوارڈ سے نوازا بلکہ دو برس قبل ملکہ الزبتھ نے انھیں برٹش نیوی کے بہت بڑے اعزازی عہدے سے بھی سرفراز کیا اور یہ بات اس لیے اور بھی زیادہ قابلِ فخر و تعریف ہے کہ وہ پوری دنیا میں واحد ایسی مسلمان خاتون ہیں جنھیں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے، اسی طرح ہماری ترک دوست ڈاکٹر آسمان بیلن اوزجان ہیں جو فی الوقت انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کی سربراہ ہیں اور پوری اُردو دنیا میں اپنی متحرک اور فعال شخصیت کے باعث عزت اور محبت سے دیکھی جاتی ہیں۔
ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ پروین شاکر مرحومہ کے فن و شخصیت پر تھا اور اُن سے میری پہلی ملاقات بھی 1998 میں اسی ضمن میں ایک انٹرویو کے حوالے سے ہوئی تھی۔ اُن کی اُس وقت کی تصویر اور آج کی حالت کو دیکھ کر یہ یقین کرنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے کہ اس دوران میں تقریباً بائیس برس گزر چکے ہیں اور چند برس قبل ایک خطرناک بیماری سے دوچار ہونے کے باوجود آسمان کے چہرے اور قہقہوں کی ساختگی میں ذرّہ برابر فرق نہیں آیا۔
اتفاق سے گزشتہ چند مہینوں میں ان دونوں خواتین سے لندن اور انقرہ میں تجدیدِ ملاقات کا موقع ملا جو بے حد پُر لطف تھا لیکن اُس وقت بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ہم اسقدر جلد دوبارہ مل سکیں گے۔ آسمان گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے اشتراک سے ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے تین رفقائے کار کے ساتھ اور دردانہ انصاری اپنی انتہائی با صلاحیت مصورہ بیٹی سے ملنے کے لیے آئی ہیں جو اب اسلام آباد میں اپنے فن کے جوہر اس طرح سے دکھا رہی ہے کہ کئی بڑے بین الاقوامی ٹی وی چینل اُس کے بارے میں خصوصی ڈاکیومینٹریز بنا چکے ہیں۔ ان اچھے مہمانوں کی آمد کی معرفت کئی بھولے بھٹکے شعر یاد آئے مگر سب سے زیادہ نمبر اس شعر کو ملے کہ
تمہارے آنے کا سنتے ہی گھر کی چیزوں کو
کبھی اُٹھاتے، کبھی پھر سے لا کے رکھتے ہیں
کہتے ہیں کہ گیا وقت لوٹ کر نہیں آتا۔۔۔ بے شک نہ آئے مگر وہ دوستی، محبت اور مہمانداری کے رشتوں کی خوشبو جس نے اُس گزرے ہوئے وقت کو مہکا رکھا تھا اُس کو یقینا واپس لایا جاسکتا ہے کوئی جانے یا نہ جانے میں نے اور میرے احباب نے ان مہمانوں کی صورت میں اس دعا کے ساتھ یہ خوشگوار تجربہ کیا ہے۔ کاش یہ کیفیت ہم سب کے لیے ایک مستقل رویے کی شکل اختیار کرلے کہ یہی وہ راستہ ہے جو انسانوں کو روبوٹ بننے سے بچا سکتا ہے۔