’’ہم وہ دیوار ہیں‘‘
یہ 1970ء یعنی آج سے تقریباً پچاس برس پہلے کی بات ہے، قومی یکجہتی کے حوالے سے ایک نظم صورت پذیر ہوئی جو میرے اولین شعری مجموعے "بزرخ" میں شامل بھی ہے مگر مشاعراتی اور پاپولر نظموں کے ہنگام میں اُس پر پڑنے والی گرد اتنی بڑھ گئی کہ وہ نظروں سے تو کیا دھیان سے بھی اوجھل ہوتی چلی گئی۔
کورونا کی اس حالیہ آفت کے حوالے سے گزشتہ کالم میں نظم "اے قوم تیرے جذبہ ایثار کو سلام" شایع ہوئی تو کسی مہربان نے اپنے تعریفی ردِعمل میں اُس کی طرف بھی اشارا کردیا، اُس کی ابتدائی لائنوں کا ذہن میں گونجنا تھا کہ خود بخود کڑی سے کڑی ملنا شروع ہوگئی اور آپ سے آپ یہ نظم اس طرح سے بنتی چلی گئی جیسے یہ پہلے سے منتظر بیٹھی تھی۔
کورونا سے حفاظت اور احتیاط کی تدابیر اپنی تکرار کے باعث ذہن میں پہلے سے نقش تھیں سو ہُوا یوں کہ بطور شاعر اس دبائو نے مجھے ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا جہاں ایک طرف یہ خیال دامن گیر تھا کہ اس صورتِ حال میں کون سا راستہ اختیار کیا جائے۔ میرؔ صاحب نے شائد ایسی ہی کسی کیفیت میں اپنا یہ مشہور شعر کہا تھا کہ
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
سو آخری فیصلہ یہی ہوا کہ خواص کی پسند پر عوام سے گفتگو کو ترجیح دی جائے کہ اس کورونا وائرس نے بھی تو خاص اور عام سب کو پوری دنیا میں ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا ہے سو اس کے مقابلے میں لفظوں کے انتخاب میں معانی کی بہتر اور براہ راست ترسیل کو اولیت دی جائے کہ اس وقت طرزِ بیان کی باریکیوں سے زیادہ اہمیت اُس کی بات کی ہے جس کے لیے یہ نظم لکھی جارہی ہے، اتفاق سے اس اثنا میں پی ٹی وی سے عزیزی محسن جعفرکا فون آیا کہ "کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا" سو پی ٹی وی کے لیے بھی کچھ تردد کیجیے، میں نے یونہی روا روی میں پرانی نظم کی ابتدائی لائنیں اُسے سنائیں اور بتایا کہ میں ان کے مفہوم اور پیغام کو کسی نئی شکل میں ڈھالنے کا سوچ رہا ہوں۔
محسن جعفر کن رس بھی ہے اور سخن فہم بھی، بولا یہ لفظ کان اور دماغ کو بیک وقت چُھو رہے ہیں، انھیں اس طرح سے رہنے دیجیے اور نظم کو آگے بڑھایئے، سو یہ تھا وہ پس منظر جس کے نتیجے میں اُس پیش منظر کے خدوخال واضح ہوئے اور یہ نظم تکمیل کو پہنچی۔ آیئے کچھ دیر اس میں جیتے اور سانس لیتے ہیں۔
ہم وہ دیوار ہیں
جس کی تعمیر میں جس قدر سنگ ہیں
سارے یک رنگ ہیں
جتنے آہنگ ہیں
ایک ہی گیت کے مختلف انگ ہیں
سارے یک رنگ ہیں
حادثے، سانحے، امتحاں، مشکلیں
زندگی کے سفر کی ہیں سب منزلیں
حوصلے سے انھیں کاٹنے کے سوا
دکھ کے ہر بوجھ کو بانٹنے کے سوا
ہر خلیجِ زیاں پاٹنے کے سوا
کوئی رستہ نہیں ہے کہ جس پر چلیں
مگر اے رفیقو، مرے ساتھیو
یہ حقیقت ہمیشہ رہے سامنے
زخم ہو یا کہ غم، کوئی ایسا نہیں
جس کا مرہم نہیں یا مداوا نہیں
جو ہوا کیوں ہوا، کس طرح سے ہوا!
اس پہ تشویش بھی اُس کی تحقیق بھی
لازمی ہے مگر بعد کی بات ہے
آگ کیسے لگی اور کیونکر لگی؟
یہ بھی اہلِ نظر، بعد کی بات ہے
ہے یہ لمحے کا سچ
سب سے پہلے اسے روکنا ہے ہمیں
اس کے پھیلائو کو، اس کی رفتا رکو
کیسے قابو کریں، سوچنا ہے ہمیں
جستجو بھی کریں حوصلہ بھی کریں
مل کے اک ساتھ آئو رفیقانِ من
التجا بھی کریں اور دوا بھی کریں
درگزر اور محبت کو لیں ہم سفر
اور پرہیز سے ابتدا بھی کریں
"بے وجہ، بے ضرورت نہ گھومیں پھریں
بھیڑ میں مت چلیں، اپنے گھر میں رہیں
چھینکئے جب تو یوں
دوسروں کے لیے مسئلہ نہ بنیں
بات جب بھی کریں
ایک دوجے سے کچھ فاصلے پر رہیں
خود کی ا ور دوسروں کی حفاظت کریں
بعد میں ہاتھ ملنے سے کیا فائدہ
وقفے وقفے سے اب ہاتھ دھوتے رہیں
رزق کو اپنی میزوں پر رکھتے ہوئے
اپنے ہمسائے کی بھوک بھی دیکھ لیں "
کٹ ہی جائیں گی یہ درد کی ساعتیں
آؤ مل کر کریں ان کی شدّت کو کم
ہاتھ میں ہاتھ دے کر چلیں ہر قدم
اور انھیں بانٹ لیں
آؤ ثابت کریں، پھر سے ثابت کریں
ہم وہ دیوار ہیں
جس کی تعمیر میں جس قدر سنگ ہیں
سارے یک رنگ ہیں
جتنے آہنگ ہیں
ایک ہی گیت کے مختلف انگ ہیں
سارے یک رنگ ہیں
ہم وہ دیوار ہیں۔ ہم وہ دیوار ہیں۔