کورونا ویکسی نیشن
کوئی دو ماہ قبل کی بات ہے کینیڈا سے برادرم ڈاکٹر تقی عابدی کا فون آیا بہت تشویش آمیز انداز میں پوچھ رہے تھے کہ آپ نے کورونا ویکسین لگوا لی ہے یا نہیں، میں نے عرض کیا کہ نہ صرف ابھی یہ سلسلہ ہمارے یہاں شروع نہیں ہوا بلکہ اس کی سپلائی اور معیار سے متعلق بھی بہت سی متضاد اطلاعات آرہی ہیں۔
اگرچہ اعلان کے مطابق میڈیکل اور پیرامیڈیکل عملے کے بعد سب سے پہلے "بزرگ شہریوں " کی باری آئے گی مگر فی الوقت چینی، امریکی، جرمن یا کسی اور ملک کے ساختہ انجکشن کی سپلائی بھی شروع نہیں ہوئی جب کہ دوسری طرف اس کی افادیت اور ملحقہ اثرات کے بارے میں بھی ایسی خبریں آرہی ہیں کہ بہت سے لوگ اسے لگوانے یا نہ لگوانے کے ضمن میں بھی متذبذب ہورہے ہیں۔
تقی بھائی نے کہا یہ سب باتیں بکواس اور بے بنیاد ہیں چند فیصد لوگوں کو انجکشن لگنے کے 72گھنٹے بعد تک درد ہلکے بخار یا کھانسی کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جو کسی بھی انجکشن کا عمومی ردعمل ہوسکتی ہیں اور یہ کیفیت ایک دو دن کے اندر ختم بھی ہوجاتی ہے جب کہ وہ تمام ویکسین جن کو عالمی ادارہ صحت نے لائسنس دے دیا ہے بالکل درست اور لگوانے کے قابل ہیں آپ کوشش کیجیے کہ جونہی یہ آپ کے ملک میں مہیا ہوں فوراً لگوا لیجیے کہ طبی ماہرین کے اندازے کے مطابق اس کی پہلی اور دوسری لہر سے تو ترقی یافتہ ممالک اور سفید فام قومیں زیادہ متاثر ہوئی ہیں مگر اس کی تیسری لہر کا غالب نشانہ تیسری دنیا کے ممالک ہوں گے۔
اس ویکسین لگوانے کی اہمیت کا اندازہ تو مجھے پہلے بھی تھا مگر ایک سینئر اور انتہائی تجربہ کار ڈاکٹرکے منہ سے اس بار بار کی تاکید نے اس کی ضرورت کے احساس کو اس حد تک بڑھا دیا کہ میں نے صبح اُٹھتے ہی پہلا فون یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وی سی اور محترم دوست ڈاکٹر جاوید اکرم کو کیا کہ اس معاملے کی تفصیلات معلوم ہوسکیں۔
انھوں نے ڈاکٹر تقی عابدی کی پریشانی کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے بیشتر لوگ حکومت کی بار بار کی یاددہانی کے باوجود اس وبا کی سنجیدگی اورخطرناکی کو سمجھنے سے انکاری ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اور تو اور خود میڈیکل اور پیرامیڈیکل اسٹاف میں بھی کچھ لوگ اسے لگوانے کے ضمن میں بہت تذبذب سے کام لیتے نظر آرہے ہیں جس کی بنیادی وجہ جہالت اور سوشل میڈیا کی پھیلائی ہوئی افواہیں ہیں، حکومت بہت وسیع پیمانے پر اس سہولت کو لوگوں تک مفت پہنچانے کے انتظامات کررہی ہے جونہی یہ انتظامات مکمل اور کام شروع ہوتا ہے میں آپ کو اطلاع کردوں گا اس دوران میں آپ 1166پر اپنا قومی شناخت نمبر بھجوا کر رجسٹریشن ضرور کروالیں۔ میں نے ایسا ہی کیا مگر 24فروری سے 11 مارچ تک سوائے رجسٹریشن کی اطلاع کے کوئی خبر نہیں ملی۔
میں نے اپنے عمومی قومی رویے اور عادت کے مطابق اسے انتظامیہ کی نااہلی اور غیر ذمے داری پر محمول کیا مگر اس کے بعد سے اب تک ایک مسلسل خوشگوار حیرت میرے ساتھ ساتھ ہے، سب سے پہلے تو یہ پتہ چلا کہ اس تاخیر کی وجہ حکومت یا متعلقہ عملے کی نا اہلی نہیں تھی بلکہ بین الاقوامی سپلائی میں تاخیر اور ویکسین سینٹرز کے قیام اور وہاں پر کام کرنے والے عملے کی تربیت اور دیگر انتظامات اس کا باعث بنے، اس وضاحت کی سچائی کا صحیح اندازہ اس پورے عمل سے گزرنے والے احباب ہی کو ہوسکتا ہے جن میں، میں خود بھی شامل ہوں۔
اس اجمال کی تٖفصیل یہ ہے کہ مجھے "الخدمت" کے ایک فنڈ ریزنگ پروگرام کے سلسلے میں 13 مارچ کو اُن کے ساتھ اسلام آباد جانا تھا اگلے دن صبح ناشتے پر پیرس سے آئے ہوئے دوست ملک ممتاز کے ناشتے کی دعوت پر الخدمت کے صدر میاں عبدالشکور (جو فجر کی نماز کے بعد لاہور سے ڈرائیو کرکے پہنچے تھے) اور برادرم انور مسعود سے بھی ملاقات ہوگئی اس دوران میں مجھے 1166کی طرف سے یہ اطلاع مل چکی تھی کہ مجھے 16مارچ کو ایکسپو سینٹر لاہور میں پہنچ کر یہ حفاظتی ٹیکہ لگوانا ہے جس کے لیے مجھے کوڈ نمبر 1264بھی الاٹ کر دیا گیا تھا۔ میں نے ڈاکٹر جاوید اکرم سے رابطہ کیا کہ مجھے واپسی پر ایکسپو سینٹر کے قریب سے ہی گزرنا ہے سو اگر مجھے آج ہی یہ سہولت مہیا کردی جائے تو میرے لیے زیادہ آسان اور بہتر ہوگا۔
انھوں نے پتہ کرکے بتایا کہ اول تو تمام رجسٹرڈ لوگوں کو ان کے مقررہ وقت سے پہلے ہی یہ سہولت دی جارہی ہے لیکن انھوں نے میرے لیے خاص طور پر کہہ بھی دیا ہے سو اِن شاء اللہ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اُن کی اس یقین دہانی کے بعد مجھے ذاتی طور پر تسلی ہوگئی لیکن امکان غالب یہی تھا کہ وہاں بہت بھیڑ بھڑکا اور بد انتظامی ہوگی کہ آج چھٹی کا دن بھی ہے۔ اب ہُوا یہ کہ بھیڑ بھڑکا تو واقعی تھا کہ صرف پارکنگ لاٹ میں داخل ہونے میں بھی خاصا وقت لگ گیا حالانکہ کوئی لائن نہیں توڑ رہا تھا کسی بھی گاڑی کو پارکنگ لاٹ سے آگے جانے کی اجازت نہیں تھی جب کہ ہال نمبر3اُس مقام سے خاصے فاصلے پر تھا جہاں سواریوں کو اُتارا جارہا تھا۔
ابھی یہ اعتراض دل میں اُبھرا ہی تھا کہ بزرگ شہریوں کو اس تکلیف میں مبتلا کیوں کیا جارہا ہے کہ یہ دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی کہ اس درمیانی فاصلے کو طے کرنے کے لیے شٹل گاڑیوں کا انتظام کیا گیا تھا جو بہت تیزی سے لوگوں کو لا اور لے جارہی تھیں۔ سب سے پہلے ڈیسک پر ایک فارم پُر کرنے کے بعد ایک اور کیبن میں ہر آنے والے کا ٹمپریچر اور بلڈ پریشر چیک کیا جارہا تھا جو اسی فارم پر درج کرنے کے بعد تیسرے عارضی کیبن میں تجربہ کارعملہ انجکشن لگا کر آپ کو دس سے پندرہ منٹ تک ایک مخصوص ایریا میں بھیج دیتا تھا تاکہ کسی فوری ردعمل کا جائزہ لیا جاسکے پھر اسی فارم کو متعلقہ ڈاکٹر کے دستخط کے بعد بیرونی دروازے پر متعین عملے کے حوالے کرکے آپ باہر نکل جاتے ہیں، یہ سارا عمل اس قدر آسان، ہموار اور آرام دہ تھا کہ بہت دیر تک یہ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ جس انجکشن کی اس قدر دھوم تھی وہ سچ مچ آپ کو لگ چکا ہے۔
میرے علم میں نہیں کہ اس خوشگوار کارروائی اور عمدہ انتظامات کی داد ڈاکٹر فیصل سلطان، ڈاکٹر یاسمین راشد، عثمان بزدار یا عمران خان میں سے کس کو یا سب کو ایک ساتھ دینی چاہیے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کم از کم لاہور کے ایکسپو سینٹر کی حد تک یہ انتظامات بہت مہارت اور خوش اسلوبی سے کیے گئے ہیں اور امید کی جانی چاہیے کہ یہ باقی جگہوں اور صوبوں میں بھی اُس معیار کے مطابق ہوں گے۔ بدقسمتی سے ہمارا قومی مزاج، سیاسی عصبیت اور نکتہ چینی کا اس قدر عادی ہوگیا ہے کہ ہم کسی اچھی چیز یا کام کی تعریف میں بُخل یا پارٹی بازی اور سیاسی اختلافات کو سب سے آگے رکھتے ہیں یہ ٹیکے لگانے والے بھی پاکستانی ہیں اور لگوانے والے بھی، سو مناسب ہوگا کہ اگر حکومت (کوئی بھی اور کسی کی بھی ہو) نے اچھے انتظامات کیے ہیں تو ان میں شامل ہر فرد کو داد اور شاباش دی جائے کہ یہی تربیت ہمیں اُس کامیابی کی طرف لے جائے گی جہاں ہم سب کچھ اور ہونے سے پہلے پاکستانی اور صرف پاکستانی ہوں گے۔