کتابوں کے ساتھ گزرا وقت
اس بار رمضان المبارک میں کوشش کی ہے کہ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز میں الجھنے سے گریز کیا جائے۔ اسی وجہ سے پچھلے کئی دنوں سے فیس بک کے کسی ٹرینڈ میں کمنٹ یا پوسٹ کرنے کے بجائے کتابوں کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دی۔ رمضان کے اپنے کچھ معمولات ہیں، ہر کوئی اپنی بساط اور ہمت کے مطابق وہ اعمال کرتا ہے۔ تھوڑا بہت ہم بھی کر لیتے ہیں۔ فراغت کے لمحات کتابوں کے ساتھ گزار رہے ہیں اور زندگی میں سرشاری کی شاندار کیفیت پھر سے محسوس ہو رہی ہے۔
سوشل میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ مگر ہر روز وہاں پنجابی محاورے کے مطابق" نواں کٹا" کھلا ہوتا ہے۔ کبھی مولانا طارق جمیل کے برانڈ اور اس مناسبت سے کئی سور وپے کے آزار بند کا قصہ، کبھی ساحد لودھی کی سخن فہمی زیربحث، آج کل فردوس عاشق اعوان کی ایک اسسٹنٹ کمشنر خاتون سے جھڑپ زیربحث ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی نیا ایشوپیدا ہو، سینکڑوں لوگ فوری طور پر اس کی حمایت یا مخالفت میں لکھنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ ہر ایک شائد یہ سوچتا ہے کہ اس نے قلم نہ اٹھایا تو معلوم نہیں کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ یوں دفاع اور تنقید میں اتنی زیادہ پوسٹیں آ جاتی ہیں کہ دیکھ کر جی متلانے لگتا ہے۔
اچھا طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان فالو کیا جائے، صرف منتخب پوسٹیں پڑھی جائیں۔ اس سے بھی بہتر طریقہ یہ کہ سوشل میڈیا کو دیا گیا وقت کم کر کے کتابوں میں صرف کیا جائے۔ ویسے بھی فیس بک پر آدمی کئی اچھی تحریریں پڑھنے کے بعد کچھ بھی یاد نہیں رکھ پاتا۔ سکرولنگ کرتے ہوئے الفاظ کی ایسی یلغار ہوتی ہے کہ تھوڑی دیر بعد حافظے میں کچھ محفوظ نہیں رہتا۔ کتاب کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کچھ صفحات پڑھتے ہیں، پھر کتاب بند کر کے اس پر سوچتے ہیں، اسے اپنے اندر جذب کرتے، اپنی یاداشت، تخئیل کا حصہ بناتے ہیں۔ یوں ایک اچھی کتاب پڑھے جانے کے بعد آپ کے مطالعے، یاداشت اور زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ فیس بک پوسٹ چند منٹ بعد فراموش ہوجاتی ہے، یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کس کی تحریر تھی۔
پچھلے چند ہفتوں میں کئی اچھی کتابیں مختلف دوست احباب سے موصول ہوئیں، خوش قسمتی سے میری خریداری کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے، یوں کچھ نہ کچھ نیا، تازہ، خاص ہمارے سٹاک میں ہر وقت دستیاب رہتا ہے۔ کچھ عرصہ ہمارے سینئر قلم کار اور دانشور جناب حسین پراچہ صاحب کی اپنے والد محترم پر کتاب" مولانا گلزار احمد مظاہری۔ زندگانی۔ جیل کہانی" پڑھنے کا موقعہ ملا۔ مولانا گلزار احمد مظاہری جماعت اسلامی کے سینئر رہنما، دینی سکالر اور ایک شاندار مقرر تھے۔ بطور داعی اور پر مشقت دینی وسیاسی جدوجہد کرنے والے کارکن کی حیثیت سے مولانا مظاہری نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ ان کی حیران کن خطابت کے بہت سے واقعات پڑھے، سنے ہیں۔ مولانا مودودی کے وہ قریبی ساتھی تھے، مولانا کی صحبت اور تربیت نے مظاہری صاحب کو کندن بنا دیا۔ انہوں نے سفر بہت کئے، ملک کے ہر گوشے میں جلسوں سے خطاب کیا، ایوب خان کی آمریت کے خلاف انہوں نے جدوجہد کی، جیل کاٹی۔ جیل کی ڈائری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ حسین پراچہ صاحب کی کتاب کا خاصا حصہ اسی ڈائری پر مشتمل ہے۔ حسین پراچہ نے اپنے عظیم والد کی داستان حیات نہایت عمدگی سے اس کتاب میں سمو دی ہے۔ قلم فائونڈیشن نے آرٹ پیپر پر بڑی خوبصورت کتاب شائع کی ہے۔ ڈاکٹر حسین پراچہ اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اتفاق ہی ہے کہ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی خودنوشت عمر ِ رواں بھی چند دن پہلے پڑھنے کو ملی۔ فرید پراچہ صاحب حسین پراچہ کے بھائی ہیں۔ فرید پراچہ گراس روٹ لیول سے اوپرآنے والے سیاسی رہنما ہیں۔ انہوں نے طلبہ سیاست سے آغاز کیا، اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنما کے طور پر جامعہ پنجاب کا یونین انتخاب جیتا۔ پھرجماعت اسلامی میں شامل ہوئے، سیاسی تحریکوں میں فعال شمولیت کی۔ ستر کے عشرے میں ختم نبوت ﷺ کی تحریک کے دوران گرفتاری ہوئی، ستتر کے الیکشن کے بعد پی این اے کی تحریک میں بھی گرفتا ر ہوئے۔ یہ گرفتاری ان کی سیاسی زندگی کا معمول رہا ہے، تیرہ مرتبہ وہ پابند سلاسل رہے۔ انہوں نے استقامت کے ساتھ سول اور فوجی آمروں کا مقابلہ کیا۔ فرید پراچہ نے بلدیاتی انتخاب لڑا، لاہور سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بنے اور پھر ایم ایم اے کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بھی رہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کے واقعات پر مبنی چار سو صفحات کی یہ کتاب تحریر کی ہے۔ پراچہ صاحب کی تحریر سادہ اور رنگینی سے پاک ہے، وہ اکل کھرے انداز میں اپنی زندگی کے واقعات یوں بیان کرتے جاتے ہیں جیسے سامنے بیٹھے باتیں کر رہے ہوں۔
کتاب کی ابتدا میں انہوں نے اپنے شہر بھیرہ اور بچپن، لڑکپن کی دلچسپ یادیں بھی بیان کی ہیں۔ ستر، اسی اور نوے کے عشروں اور بعد کی سیاسی تحریکوں اور سیاسی پیش رفت کو انہوں نے قریب سے دیکھا۔ اپنے چشم دید واقعات انہوں نے روانی سے بیان کئے۔ ان میں سے کچھ سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ پراچہ صاحب بنیادی طور پر سیاسی کارکن ہیں، انہوں نے کتاب میں اپنے سیاسی کارکن ساتھیوں کے ساتھ خوب وفا نبھائی، بلامبالغہ سینکڑوں ہزاروں نام اس میں بیان کئے گئے۔ بہت سے گلی محلے کے کارکنوں کا تذکرہ انہوں نے بیان کیا اور ان کے ناموں کو تاریخ کے ریکارڈ کاحصہ بنایا ہے۔ جماعت اسلامی ان کی زندگی کا محور ہے، جماعت نے کس دور میں کیا کیا، یہ سب فرید پراچہ کی کتاب میں ملے گا۔
کتاب میں خاصا کچھ ہے، مگر میرے جیسے لوگوں کو امید تھی کہ فرید پراچہ صاحب تاریخ کے بعض ان کہے، ان سنے باب بھی تحریر کریں گے۔ اسلامک فرنٹ جماعت کی تاریخ کا بہت اہم موڑ تھا۔ قاضی حسین احمد نے یہ تجربہ کیا اور پھر شدید جماعتی ردعمل پر اسے ترک کرنا پڑا۔ مجھے امید تھی کہ فرید پراچہ صاحب اس حوالے سے کچھ لکھیں گے، انہوں نے شائد مصلحتاً گریز کیا۔ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔ اتنے عرصے بعد تجزیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ روس کے خلاف افغان جہاد میں جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ بڑے پرجوش انداز میں شامل رہی۔ اس افغان جہاد میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا، اس پر ہمارے ہاں ایک مختلف تنقیدی رائے بھی موجود ہے۔ ہمارے کئی ممتاز رائٹ ونگ دانشور اور لکھاری بھی آج ماضی کے ان دنوں کا بے لاگ تجزیہ کرتے ہوئے بعض تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ پراچہ صاحب نے اس حوالے سے کسی تجزیے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
سب سے اہم ایم ایم اے کا دور حکومت اور پھر اس کا ٹوٹنا ہے۔ ایم ایم اے کے اختلافات، صدر مشرف کے ایک ہی اسمبلی سے دوسری بار صدر منتخب ہونے کی کوشش کے حوالے سے یہ سب جھگڑا چلا۔ مولانا فضل الرحمن سرحد اسمبلی توڑنے کے مخالف تھے، قاضی حسین احمد پرجوش حامی۔ بعد میں ایم ایم اے ہی ختم ہوگیا۔ فرید پراچہ صاحب نے اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ توان واقعات سے یوں گزر گئے جیسے یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہی نہ ہوں۔ 2008ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا، اس پر اگرچہ پراچہ صاحب نے محتاط انداز میں چند سطریں تحریر کی ہیں، لب لباب یہی کہ وہ فیصلہ غلط تھا۔
ایک دلچسپ بات انہوں نے جمعیت کے سابق رہنما اور الخدمت پاکستان کے موجودہ سربراہ عبدالشکور صاحب کے حوالے سے لکھی۔ جنرل ضیا کے دور میں عبدالشکور صاحب سعودی عرب چلے گئے تھے۔ اس سے قبل عبدالشکور صاحب ضیا حکومت کی جانب سے اعلان کردہ الیکشن کے لئے جماعت اسلامی کی جانب سے امیدوار تھے، الیکشن ملتوی ہوئے تو وہ سعودی عرب بغرض تعلیم چلے گئے۔ جنرل ضیا نے ان دنوں سعودی عرب کا دورہ کیا، وہاں مقیم پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی تو عبدالشکور صاحب نے پوچھا کہ اگر آپ الیکشن کرانے لگے ہیں تو میں پاکستان آ جاتا ہوں۔ جنرل ضیا نے بڑے سکون سے جواب دیا، نہیں آپ اپنی تعلیم مکمل کریں، ہوسکے تو ایک دو کورسز مزید بھی کر لیں، مجھے الیکشن کرانے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں جنرل ضیا اپوزیشن کو یہی لار ا دے رہے تھے کہ الیکشن جلد ہوں گے۔ جنرل ضیا الحق کی دروغ گوئی اور چالاکی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ڈاکٹر فرید پراچہ کی یہ کتاب مجموعی طور پر اہم اور دلچسپ ہے۔ سیاسی رہنمائوں کو اپنی خود نوشت ضرور لکھنی چاہیے۔ تاریخ کے سفر میں ہر سیاسی کارکن اور لیڈر ایک کڑی کی حیثیت رکھتا ہے، اس نے جو کچھ دیکھا، سنا، برتا، وہ اسے بیان کر دینا چاہیے۔ یہ تاریخ کا قرض ہے، اپنی زندگی ہی میں چکا دینا چاہیے۔ جماعت کے دیگر رہنمائوں خاص کر لیاقت بلوچ صاحب کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ انہوں نے بڑی مصروف سیاسی زندگی گزاری ہے، بلوچ صاحب کے مشاہدات قابل مطالعہ ہوں گے۔
ایک بہت اہم کتاب کا تذکرہ رہ گیا۔ یہ میرے نزدیک سو کتابوں کے برابراکیلی کتاب ہے۔ مذہبی کتب سے ہٹ کر کوئی کتاب کسی کو تجویز کرنا پڑے تو سو فی صد اسی کتاب کانام لیتا ہوں۔ میری آل ٹائم فیورٹ رہی ہے۔ پندرہ بیس برسوں سے یہ کتاب آئوٹ آف پرنٹ رہی ہے، خوش قسمتی سے چند ہفتے قبل یہ شائع ہوگئی۔ اس پر ان شااللہ اگلی نشست میں تفصیل سے بات کریں گے۔ کتاب کا نام رہ گیا، چلیں وہ بھی اگلی بار ہی سہی۔