اقتدار کا پہلا سال … اُمید بہار رکھ!
گزشتہ سال 25 جولائی کو انھی دنوں حبس والی گرمی میں قطاروں میں کھڑے لوگ پسینے میں شرابور تھے، ان کی آنکھوں میں امید کے چراغ جل رہے تھے۔ انھیں ملک کی فکر کھینچ کر ووٹ ڈالنے کے لیے لائی تھی، بہت سے لوگ تو ایسے بھی تھے جنہوں نے پہلی بار پولنگ بوتھ کا رخ کیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر نئے ووٹوں کی تعداد پرانے ووٹوں کے برابر تھی، عوام ایک اُمید لیے ووٹ ڈال رہے تھے، ہر طرف گہما گہمی تھی، عوام 36، 36گھنٹے ٹی وی چینلز پر مسلسل بیٹھے رہے، پھر 35سال بعد ایک نئی جماعت نے اقتدار سنبھالااور بہترنتائج دینے کے لیے میدان عمل میں کود پڑی۔ آج اس حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے ایک سال ہوگیا ہے، اس پہلے سال میں خوابوں کی تکمیل میں رکاوٹ سے عوام پریشان حال ہیں لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ ابھی تک وہ مایوس نہیں ہوئے۔
اس ایک سال میں فوج اور حکومت ایک پیج پر نظرآئے۔ عمران خان کی حکومت نے ایک محاذ پر کھل کر کھیلااور بہترین کارکردگی دکھائی، اُس محاذ کا نام ہے "خارجہ محاذ"۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت جیسے ہمارے دوست ممالک جوبوجوہ سرد مہری کا رویہ اختیار کیے ہوئے تھے، عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ مل کر اس سرد مہری کو گرم جوشی میں بدل دیا اور فوری اقتصادی مشکلات پر قابو پا لیا۔ اس میں حالیہ دورہ امریکا بھی اپنی جگہ خاص اہمیت رکھتا ہے جس سے قوم کا مورال بلند ہوا۔
اسی سال اپوزیشن پارلیمنٹ پر حاوی نظر آئی، اپوزیشن پارلیمنٹ پارلیمنٹ کا شور مچاتی رہی مگر وہ پارلیمنٹ میں سابقہ ادوار میں اتنی بھاری مقدار میں لیے گئے قرضوں کے بارے میں جواب دینے سے قاصر نظر آئی اور یہ سوال بھی گول کرتی نظر آئی کہ ان قرضوں کا سود کیسے ادا ہو گا اور قرضوں کی واپسی کیونکر ممکن ہو گی۔ اتنے بھاری قرضوں کی وجہ سے معیشت بلندی کی طرف جانے کے بجائے انتہائی پستی کی طرف جا تی رہی جس سے لوگ چیخ و پکار کر تے بھی نظر آئے۔ جہاں تک گورننس کا تعلق ہے تو تھانے کچہریوں میں عوام کو وہ ریلیف نہ مل سکا جس کی وہ اُمید لگائے بیٹھے تھے۔
حیرت انگیز طور پر جرائم کی شرح کے نتائج انتہائی خطرناک رہے۔ ایک سال میں پنجاب میں جرائم کی شرح میں 19فیصداضافہ ہوا ہے۔ اس سال کے دوران وہ وہ جرائم سامنے آ ئے جو پہلے پنجاب میں شاذو نادر ہوتے تھے۔ معیشت کی بات کی جائے تو جس طرح کا "پاکستان" اس حکومت کو دیا گیا اس سے تو یہ صاف ظاہر تھا کہ چند ماہ میں جب پاکستان امپورٹ بل واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا تو یہ دیوالیہ ہو جائے گا، لیکن عمران خان کی بہترین پالیسی نے ملک کو معاشی گرداب نکالا۔
لیکن عالمی سطح پر کرپشن میں ہمارا انڈیکس پہلے بھی 117پر تھا، اور آج بھی 117پر ہے۔ ایک سال بعد آج معیشت کی شرح نمو 2.4فیصد ہے اور ہماری آبادی کی شرح افزائش بھی 2.4فیصد۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معیشت صفر پر کھڑی ہے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود میں ایمان کی حد تک کہوں گا کہ تقابل کی اس میزان کا پلڑا بہر حال عمران کے حق میں ہے۔ اس سماج میں ایسا آدمی ہی تبدیلی کا بھاری پتھر اٹھا سکتا ہے۔ خدا کی عطا میں کوئی کمی نہیں۔ مقبول ہے۔ شخصیت میں ایک سحر ہے۔ جہاں جاتا ہے جان ِ محفل وہی ہوتا ہے، وہ بھلے ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس ہی کیوں نہ ہو۔ سفارتی سطح پر اس کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ پورے قد آور پوری جرأت کے ساتھ وہ کہیں بھی بات کر سکتا ہے۔ اسے نظر انداز کرنا عالمی سیاست کے اکابرین کے لیے ممکن ہے نہ بین االاقوامی میڈیا کے لیے۔
بہرکیف عمران خان جہاں اداروں سے سیاست کو ختم کر رہے ہیں، وہیں قوم کا مورال بلند کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات کریں، جیسے عافیہ صدیقی کی رہائی، گڈ گورننس کے حوالے سے بے شمار اقدامات، پہلے سے موجود اداروں کو الرٹ کرنا، سرکاری ملازمین پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا اور بیرون ملک پاسپورٹ کی عزت بڑھانا وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں چھوٹے چھوٹے ٹارگٹ سیٹ کرنے چاہئیں۔ پاکستان کو بھی وہ کرکٹ میچ کی طرح کھیلیں اور جیتیں!یعنی خان صاحب جیسے میچوں کی پلاننگ کیا کرتے تھے کہ ہم نے اتنے اووروں میں اتنا اسکور کرنا ہے، اتنے اووروں میں اوسط رنز بڑھانے ہیں۔ تیز کھیلنے والا اور سلو کھیلنے والا کھلاڑی دونوں ساتھ لے کر چلنے ہیں، کہاں چوکا چھکا لگانا ہے وغیرہ۔ خوش آیند بات یہ بھی ہے کہ تاجروں کے لیے الگ سسٹم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عمران خان نئے پراجیکٹ بھی شروع کریں کیوں کہ عوام کو یقین ہے کہ اب جو بھی پراجیکٹ بنیں گے وہ فرد واحد کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بنیں گے۔ لہٰذاان اقدامات سے یقینا عوام کا مورال بلند ہوگا۔ ان حالات میں میرے خیال میں عمران خان کی ناکامی صرف دنیائے سیاست کا ایک واقعہ نہیں ہو گا۔ اس حادثے کے سماجی اثرات بہت خطرناک ہوں گے۔ عرصے بعد اس سماج نے ایک خواب دیکھا تھا۔ جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کی شاید یہ آخری کوشش تھی جو ہماری نسل نے کی۔ یہ کوشش ناکام ہوئی تو لاتعلقی اور مایوسی پھیلے گی جو روایتی سیاسی قوتوں کی تقویت کا باعث تو بنے گی ہی، یہ کسی اشتعال انگیز قسم کے رد عمل کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ وہی کرپٹ ٹولہ ہم پر مسلط ہو جائے گا اور پہلے سے زیادہ کرپشن کرے گا۔
لہٰذا عمران خان کے پاس ابھی چار سال ہیں یعنی وہ ابھی 20فیصد کارکردگی دکھا سکے ہیں 80فیصد دکھانا ابھی باقی ہے، اس لیے گزارش ہے کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اپنی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیںاور اپنی تمام تر توجہ معیشت پر مرکوز کریں۔ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ حوصلہ شکنی۔ کاروبار جتنا پھلے پھولے گا ملک میں اتنی ہی خوش حالی آئے گی۔ اور تب آہستہ آہستہ تاجروں، ٹیکس چور صنعت کاروں اور کرپٹ سیاستدانوں کا شکنجہ بھی کستے چلے جائیں تاکہ سانپ بھی مر جائے، لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور عوام بھی "شجر" سے پیوست رہیں!