گورنمنٹ کالج کا المیہ
گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک خط وائرل ہے، یہ خط گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی کا ہے، اس خط میں وی سی نے مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے اساتذہ اورطالب علموں سے خطاب کے لیے مدعو کیا گیاہے، یہ خبر میرے لیے بالکل بھی غیر متوقع نہیں کیوں کہ گزشتہ تین برسوں میں اس تاریخی ادارے کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ناقابلِ بیان ہے۔
مذہب، سیاست اور ظرافت کی آڑ میں اس درس گاہ کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی شاندار تاریخ کو جیسے مجروح کیا گیا اور اسے سیاسی طور پر یرغمال بنایا گیا، وہ ناقابلِ معافی ہے۔ دنیا کو تسخیر کرنے کا دعویٰ کرنے والے ادارے کو سیاسی جماعتوں کا"الیکشن سیل"بنا نے والوں سے کوئی سوال کرنے والا نہیں، دنیا کی ترقی یافتہ قوموں سے مقابلے کا خواب دیکھنے والے طالب علموں کومذہبی وسیاسی مسخروں کے حوالے کر دیا گیا اوراحتساب کرنے والے اس سارے عمل کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ میرا اعتراض یہ نہیں کہ مریم نواز کیوں آ رہی ہے، میرا دکھ تو یہ ہے کہ ہم نے تعلیمی اداروں کو سیاسی کمپین کے لیے کیوں استعمال کیا؟
کیا تعلیمی اداروں میں سیاست دانوں کی مداخلت ہونی چاہیے یا کیا تعلیمی اداروں کو مذہبی و سیاسی یونینز کے حوالے کرنا چاہیے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہ میں پنجاب یونیورسٹی کا حال دیکھ لینا چاہیے، اس اہم ترین ادارے کو آج "مقبوضہ جامعہ پنجاب"کہا جاتا ہے، کیوں؟ کیوں کہ مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والے مافیا نے اس ادارے میں نفرت، تعصب اور غصے کی جو فصل تیارکی ہے، اس نے وطنِ عزیز کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ طالب علموں کے حقوق کی آواز بلند کرنے کا نعرہ لگانے والوں نے اپنی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، صوبائی و لسانی جنگ کو ہوا دینے والوں نے ایک مرتبہ بھی اداروں کے تقدس کے بارے میں سوچا؟
لاہور سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں موجود سیاسی ومذہبی یونینز کی تاریخ پڑھ لیں، آپ حیران ہوں گے کہ اصلاح کے نام پر تخریب کاری کوپروان چڑھانے میں تعلیمی اداروں کی یونینز نے انتہائی بھیانک کردار ادا کیا۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے تعلیمی اداروں میں اپنا ووٹ بنک بنانے کے لیے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے طالب علموں کو ورغلا کر ان سے اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے گئے۔
گزشتہ برس اسی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں جب عمران خان کو مدعو کیا گیا تھا، مریم نواز کا ٹویٹ بھی یہی تھا کہ تعلیمی اداروں کو سیاست سے پاک رکھیں، طالب علم قوم کا مستقبل ہوتے ہیں، انھیں سیاست دانوں کی عیاریوں سے محفوظ رکھنا چاہیے، نوجوانوں کو اپنی دنیا خود دریافت کرنی چاہیے، کسی سیاست دان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ طالب علموں کو اپناسیاسی ایجنڈا پیش کرے۔
مریم نواز نے وائس چانسلر اصغر زیدی کے خلاف سخت ایکشن کی بھی دھمکی دی تھی۔ ذراءع کے مطابق گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے وائس چانسلر اصغر زیدی کی سرزنش بھی کی تھی کہ انھوں نے ایک اہم ترین تعلیمی ادارے میں عمران خان کو کیوں مدعو کیا۔ آج وہی گورنر پنجاب اور وائس چانسلر ہیں اور وہی مریم نواز بھی، سیاسی تھیٹر بھی اسی ادارے میں لگ رہا ہے، کیا آج مریم نواز اسی ٹویٹ کو دوہرائیں گی جو عمران خان کے لیے کیا تھا۔
گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی میں سیاسی، عسکری و مذہبی شخصیات کو مدعو کرنا اتنا ہی اہم ہے تو پھر بغیر کسی تفریق کے، سب جماعتوں کو حق ملنا چاہیے۔ جتنا عمران خان اور نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، راحیل شریف، قمر جاوید باجوہ اور شاہد خاقان عباسی کو حق ہے، اتنا ہی حق مولانا سعد رضوی، مولانا فضل الرحمن، مولانا سراج الحق، علامہ طاہر القادری، علامہ ناصر مدنی، مولانا ضیاء اللہ شاہ بخاری، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اورمفتی عبد القوی کو بھی ہے۔ آصف علی ذرداری، بلاول بھٹو ذرداری اور استحکام پارٹی کے رہنماءوں کو بھی یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں میں اپنا سیاسی ایجنڈا پیش کر سکیں۔
اگر یہ حق نون لیگی صحافیوں کو دیا جاتا ہے کہ وہ گورنمنٹ کالج یا دیگر تعلیمی اداروں میں اپنا سیاسی نقطہ نظر پیش کر سکیں تو پھر تحریک انصاف سمیت دیگر پارٹیوں کے صحافیوں کو بھی اجازت دے دیں کہ وہ تعلیمی اداروں کو رخ کریں اور اپنی اپنی سیاسی پارٹی کی نمائندگی کریں اور ان کے ووٹ بنک کے لیے جدوجہد کریں اور اگر ایسانہیں ہو سکتا تو پھر تعلیمی اداروں کے سربراہان کو یہ ایس او پی بنانی چاہیے کہ کسی بھی پارٹی کا قائد، خواہ وہ مذہبی ہے یا سیاسی، تعلیمی ادارے میں جلسہ نہیں کر سکتا، ذاتی مفاد اور مدت ملازمت کی توسیع اپنی جگہ اہم سہی مگر طالب علموں کا مستقبل اس سے کہیں زیادہ اہم اورحساس ہے۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، جس نے سینکڑوں قدآور شخصیات پیدا کیں، وہاں ایسے لوگوں کو قبضہ ناقابلِ برداشت ہے جن کے نزدیک ذاتی مفاد، ملکی مفاد سے زیادہ اہم ہے۔ وائس چانسلرز اپنی نوکریاں بچانے کی بجائے نسلوں کا مستقبل بچائیں، پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سمیت ملک بھر کے درجنوں تعلیمی ادارے قبضہ مافیا اور سیاسی و مذہبی جماعتوں اور یونینز کے زیراثر ہیں، وہاں چلنے والی تحریکیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے نوجوانوں کا استعمال کر رہی ہیں، ایسے میں ان جماعتوں اور یونینز کے خلاف سخت ترین ایکشن کی ضرورت ہے۔
اگر ایسے ہی تعلیمی اداروں کے سربراہان اور وائس چانسلرزاپنے اپنے سیاسی ایجنڈے کے فروغ کے لیے کام کرتے رہے تو ہمارے تعلیمی ادارے ایک دن سیاسی اکھاڑا بن جائیں گے اور یہاں سے تیار ہونے والی نسل، قوموں کو تباہ کر دے گی۔ اگر آپ نوجوانوں کا مستقبل چانا چاہتے ہیں تو پھر ایس او پی بنائیں ورنہ گورنمنٹ کالج سمیت دیگر تعلیمی ادارے مذہبی، سیاسی و عسکری شخصیات کے حوالے کر دیں یا پھر یوٹیوب پر بیٹھے مسخروں کو ان اداروں کی سربراہی سونپ دیں، وہ جیسے چاہیں، جو چاہیں، جب چاہیں یہاں تماشا لگاتے رہیں، کوئی ان سے سوال کرنے والا نہ ہو۔