Sunday, 29 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Ye Aqeede

Ye Aqeede

یہ عقیدے

عقیدہ سمجھ نہ آنے والی چیز ہے، جو سمجھ میں آ جائے وہ پھر عقیدہ نہیں رہتا، عقیدے کو عقل و فلسفہ کی ضرورت نہیں ہوتی، منطق سے عقیدے کا دفاع کرنا ٹوٹی ہوئی چٹان کو ویلڈنگ کرنے کے مترادف ہے، جیسے چٹان پر ویلڈنگ کرنا بیکار ہے ویسے ہی عقیدے کا دفاع منطق سے کرنا بیکار ہے، علم الکلام کی شکل میں یہ کوشش ہوئی تو ضرور مگر یہ کوشش لوہے کی چادر کو دھاگے سے سینے جیسی تھی۔

عقائد کو بس مانا جاتا ہے، ان کو سمجھا نہیں جاتا، جس عقیدے کی پراسراریت ختم کو جائے وہ اپنا حق معبودیت کھو دیتا ہے، پہلے انسان نے آگ کو معبود بنایا، مگر جب انسان پر آگ کا راز کھلا تو اس کا خدا سورج بن گیا، پھر ستارے، جتنا انسان کائنات کو سمجھتا گیا، اتنا ہی اس کا خدا اس کے فہم کائنات سے اونچا ہوتا گیا، جو انسان کو خود بھی سمجھ نہ آسکے، یہاں تک جدید تصور خدا جو اسلام نے پیش کیا وہ اب تک کا سب سے پراسرار تصور خدا ہے۔

عقیدے اور مذہب تہذیب کی ضرورت ہوتے ہیں، انسانوں کے بڑے ہجوم کو جوڑے رکھنے کے لیے عقائد ایلفی کا کام کرتے ہیں۔ آپ مذھب سے بھاگ نہیں سکتے، مجھ سمجھ نہ آسکی ہم مذہب کا مکمل انکار کیوں کرنا چاہتے ہیں، الحاد راستے کی پہلی سیڑھی ہو سکتی ہے مگر منزل نہیں مگر ہم جدیدیت کے چکر میں پہلی سیڑھی کو منزل بنا بیٹھتے ہیں، ہمیں لگتا ہے عقائد، یہ مذہب، یہ توہم پرستی یہ سب آسمان سے اترے ہیں، نہیں یہ سب سماج کے اندر سے نکلتے ہیں، ہم انسانوں نے ہی یہ مذھب اور عقیدے کا ادارہ بنایا، ہم الحاد کا چوغہ پہن کر مذھب سے بھاگ نہیں سکتے، مذھب ہر جگہ ہے، ہماری گفتگو میں مذھب ہے، ہمارے محاوروں میں مذھب ہے، ہمارے لٹریچر میں مذھب ہے، ہمارے تہواروں میں مذھب ہے، ہماری پیدائش کے وقت کان میں اذان، بھجن یا بپتسمہ دیا جاتا ہے، موت بھی مذہب کی محتاج ہے، ہمارے دنیاوی معاملات عرض ہر جگہ مذھب ہے، ہم خدا کی قسم کھا کر اگلے کو یقین دلاتے ہیں، کرائسٹ کا واسطہ دیتے ہیں، یہ قسم اور واسطے لوگ قبول بھی کرتے ہیں یہ کیا ہے ہم اتنی بڑی حقیقت کا انکار کیسے کر سکتے ہیں، ہم ملحد رہ کر بھی کلچرل مسلم یا کلچرل ہندو رہیں گئے۔

مذھب کا انکار حل نہیں ہے، ہم سے کئی لوگ بہت سے جرم اس بنیاد پر نہیں کرتے یہ ان کے عقیدے کے منافی ہے، آپ مجھے ضرور کہیں گے، جرم کی روک تھام قانون کرتا ہے عقیدہ نہیں، آپ مجھے ہوسکتا ہے کسی مغربی ملک کی مثال بھی ٹکرا دیں، وہاں مذھب سے زیادہ قانون کا راج ہے۔

میں کہتا ہوں کیا قانون بھی عقیدے سے کم، پہلے سمیسٹر کی introduction to law کی کلاس میں قانون کی بہت سے تعریفوں میں سے ایک تعریف ہم نے جو پڑھی تو وہ کچھ یوں تھی

Law is the command of superior

اب وہ superior خدا ہو یا آئین یا مقننہ، اس کی طرف سے آیا ہوا حکم آرٹیکل، ایکٹ یا الہامی کتاب کی طرح authoritative Truth یا محکم سچائی کی شکل اختیار کر جاتا ہے، جس کی خلاف ورزی پر جیل یا جہنم کی بیرک میں ڈال دیا جائے گا۔

یہ توہم پرستی، عقائد، قانون سب ہی ایک درجے میں آتے ہیں، توہم پرستی ہو یا مافوق الفطرت عقائد یہ جتنے سطحی اور فضول لگتے ہی اتنے ہی گہرے ہوتے ہیں، اگر یہ ختم ہو جائیں تو انسان کا سماج بکھر جائے، ہم چار فلسفیوں کی کتابیں پڑھ کر ان کا انکار تو کردیں مگر اس کا متبادل دے نہیں پائیں گے۔

یہ عقائد انسانوں کی ضرورت ہیں، جہاں انسان ہے وہاں عقیدہ ہے چاہے وہ عقیدہ مذھب کی شکل میں ہو، یا یوٹوپیا کی یا پھر قانون کی شکل میں۔

Check Also

Qissa Kali Bheron, Bhoond Aur Kalay Lifafay Ka

By Nasir Naqvi