Tharki Danishwar
ٹھرکی دانشور
طیفا اب طفیل آزاد بن گیا ہے۔ نام کے ساتھ آزاد تب لگا جب سے وہ لفظوں کو صفحات پر قید کرنے لگا ہے، طفیل آزاد اب ملک کا مشہور و معروف چہرہ اور لکھاری ہے، شاید واحد لکھاری ہے جس کی روزی روٹی الفاظ کو قلم سے زیادہ منہ سے اگلنے سے چلتی ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب طیفا ابھی طفیل آزاد نہیں ہوا تھا۔ گاؤں میں رہتا، سورج چڑھے باسی لسی کے دو گلاس پیٹ میں انڈیلتا، تین چار درجن بار دھلی بوسکی کی بوسیدہ قمیض پہنتا، جامنی رنگ کے درمیانی سائز کے رومال کو گلے میں لوفروں کی طرح باندھے، دنداسے لگے سرخ ہوئے ہونٹ اور پاؤں میں سستی پالش سے چمکائی گئی نیروزی پشاوری چپل پہنے طیفا سراپا مجسم لفنگا تھا۔ نظربازی جو تاڑنے کی حد تک جا چکی جاتی طیفے کا مرغوب مشغلہ تھا۔ گاؤن کی پگڈنڈیوں پر اٹھکیلیاں کرتی الہڑ مٹیاروں کو تاڑ کر آنکھیں سیکنے کو طیفا حسن پرستی کہتا۔ شاید طیفے نے ہوس پرستی کا نک نیم حسن پرستی رکھا تھا۔
شام ڈھلے جب گاؤں کی گبھرو حسینائیں سروں پر مٹکے رکھے ٹیوب ویل کی طرف پانی بھرنے جاتیں تو طیفا وہاں ٹھرک کی مچان لگا کر بیٹھ جاتا۔ سروں پر پانی سے بھریں گاگریں رکھے، تنگ دامن والی قمیص پہنیں یہ گبھرو دوشیزائیں جب چلتیں تو ان کے پانچ پانچ سیر کے تھرتھراتے کولہے طیفے کے دل پر بلڈوزر چلا دیتے۔
بیل پر لگے انگوروں کے گچھے کی طرح ان کی ہلتی چھاتیاں اس کی فشار خون کو تیز کر دیتیں۔
مگر یہ دوشیزائیں طیفے کو کچھ خاص لفٹ نہ کرواتیں، اس کو دیکھ کر ان لڑکیوں کا گروپ آپس میں کھی کھی کرکے اسے دھتکار کر آگے چلا جاتا پیچھے ہجر کے انگاروں پر طیفے کو چھوڑ کر۔
ویسے تو سب لڑکیاں ہی پٹاخہ تھیں مگر طیفے کا دل نسرین پر زیادہ ہی آتا تھا، گندمی رنگ، نقشی چہرہ جو کناروں سے بڑی نفیس کروٹ کھا کر گردن کی جانب مڑ جاتا، اس پر سہاگہ یہ کہ ناک اور ہونٹوں کے درمیان بڑا سا تل، اور سب سے خاص بات سنورے ہوئے گؤشت سے بھرپور کولہے جو طیفے جیسے کسی بھی مرد کے دل میں ہنگامہ برپا کر سکتے تھے، نسرین طیفے کو خاص بہاؤ نہ دیتی، طیفا پچھواڑے کا زور لگا کر بھی نسرین کے دل تک نہ پہنچ پایا۔
ایک دن طیفے نے نسرین کو ٹیوب ویل کے قریب اکیلا دیکھ لیا، آج نسرین اکیلی آئی تھی، اس کے ساتھ باقی لڑکیوں کا گینگ نہیں تھا، طیفے نے بڑی ادا سے جامنی رومال گردن سے نکال کر ہاتھ میں گھمایا اور نسرین کو مخاطب کرکے بولا۔
"نسرو، کب تک تڑپاؤ گئی مجھے"۔
میں کب تم جیسے بغلول کو تڑپانے لگی۔ نسرو نے روکھے لہجے میں کہا۔
"دیکھو نسرو میں تمھارے لیئے کچھ لایا ہوں"۔
طیفے نے کھبی جیب سے ایک لاکٹ نکال کر نسرو کو دیا اور کہا۔
"یہ میرا ماما کراچی سے لایا تھا، اسے میری محبت کی نشانی سمجھ کر رکھ لو"۔
نسرو نے قہر آلود نگاہ طیفے پر ڈالی، جس کی آنکھیں سرمے اور مونچھیں جموں کے تیل سے لدی ہوئی تھیں اور ٹھیٹ پنجابی میں دو عدد گالیاں طیفے کی طرف لڑکھاتے ہوئے کہا "پراں وڑ"۔
طیفے دل میں محبت کی آگ لیے اور ٹھکرائے جانے کا درد لیے نسرین کے تھرتھراتے کولہوں کے عقبی مشاہدے میں مشغول ہوگیا۔
***
بیس سال بعد
طیفے کو اب طفیل آزاد کہا اور پکارا جاتا ہے۔ طفیل آزاد میں طیفا کئی دفن ہوگیا تھا، طفیل آزاد اب ڈرامے لکھتا ہے، شاعری کرتا ہے، یونیورسٹیوں میں جا کر لیکچر وغیرہ بھی پیلتا ہے۔ ہر سابقہ ٹھرکی مرد جو محبوب کے لمس سے محروم رہ جائے وہ چالیس سال کے بعد اشرف علی تھانوی بن جاتا ہے۔
طیفا بھی پارٹ ٹائم تھانوی تھا۔ لڑکیوں کر جاہل کہتا، اپنے لیکچرز میں عورت کے خمیر کو بے وفا قرار دیتا۔ وہ کہتا جو عورت کسی غیر مرد کے ساتھ سو گئی اسے ساری عمر جاگنا پڑے گا۔ شاید طیفا ہر لڑکی کو نسرین سمجھ کر اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتا۔
جب کبھی رات کے سمے طیفے کو گاؤں کی لخمی کولہوں والی دوشیزاؤں کی یاد ستاتی تو وہ دو عدد ڈبل سیگریٹ پھونکنے کے ساتھ بے وفا عورت قبیل کے ڈرامے لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کرتا۔ ایک ایسی ہی رات اس کی فون کی سکرین چمکی۔
میسج آیا ہوا تھا۔
کیسے ہو طیفے۔
بڑے عرصے بعد طفیل آزاد کو کسی نے طیفا کہہ کر مخاطب کیا تھا۔
طیفے نے ریپلائے کیا کون۔
"میں نسرو، کیا تم بھول تو نہیں گئے"۔۔
طیفے کی آنکھوں کے آگے نسرو کے تھرتھراتے کولہے آگئے، ماضی کی فلم چلنے لگی۔
نہ جانے اس کو دھتکارنے والی نسرو نے اس سے رابطہ کیونکر کیا تھا، کیا میری شہرت سے متاثر ہوئی ہے۔
نہیں نہیں میں تو بیوی بچوں والا ہوں، میں حیا کے گیان پیلتا ہوں، یہ میں کیا کر رہا ہوں۔ مجھے یہ میں نہیں کرنا چاہیے۔ مگر پرانی محبت کا ریلہ ساری پارسائی بہا کر لے گیا۔
گاؤں کے ٹیوب ویل سے شروع ہونے والی محبت اب واٹس ایپ کے لانگ ڈسٹنس ریلیشن شپ پر آگئی۔ گھنٹوں طیفا نسرو کے ساتھ chatting کرتا۔
ایک دن طیفے نے نسرین سے ملنے کی خواہش کردی۔
"میں کیسے مل سکتا ہوں، میرے مرد کو پتہ چل گیا تو وہ میرے ٹوٹے ٹوٹے کر دے گا"۔
"کچھ نہیں ہوتا نسرو، میں گاؤں میں آکر تمھیں مل لوں گا"۔
دن اور جگہ منتخب ہوئے، طیفا تیار ہو کر پہنچ گیا، اس کی نظریں نسریں کو دیکھنے واسطے بے تاب تھیں۔ اتنے میں دور سے کنواری چھوکری کی طرح مٹکتی طیفے کی نسرو آرہی تھی۔
ڈھلتی عمر نے بھی نسرو کے کولہوں پر کچھ خاص اثر نہیں ڈالا تھا، قریب آکر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، طیفے نے اندر کے تھانوی کو کچھ وقت کے لیے سلا دیا اور اندر کے دانشور کو حسن پرستی کا لالی پاپ چوپنے کے لیے دے دیا، اس سے پہلے کہ طیفا نسرو کے ساتھ لمحاتِ وصل کے دستور کے مطابق کچھ کرتا۔
اتنے میں کماد کے کھیت سے آواز آئی۔
پکڑ ہو شیدے، اے ہو ہی سور اے جس نے ساڈی پین دی عزت تار تار کرنے دی کوشش کیتی ہے۔
اس کے بعد چھ سات مستنڈوں نے مار مار کر طیفے کا پچھواڑا منہ ایک کر دیا۔
***
تھانے کا پنکھا تھانے کی کاروائی کی طرح سست روی کا شکار ہے۔ پنکھے کے نیچے بیٹھا محرر تک ٹاک دیکھنے میں مصروف یے۔ اتنے میں اس کے سامنے طفیل آزاد فینز نامی آئی ڈی سے ایک ویڈیو آئی۔
جس میں طفیل آزاد فرما رہے ہیں۔
اتنے میں تھانے میں ایک زخمی ہوا بندہ لڑکھڑاتا ہوا داخل ہوا۔
اور محرر جو ویڈیو دیکھنے میں مصروف تھا۔ اس کے پاس آکر کہا۔ ایک ایف آئی آر درج کروانی ہے۔
محرر نے ویڈیو دیکھتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔
نام بولو۔
"طفیل آزاد"
محرر نے یک دم اوپر دیکھا تو وہ طیفا تھا۔
"جو عورت غیر مرد کے ساتھ سوتی ہے وہ ساری زندگی جاگتی رہتی ہے"۔
طفیل آزاد کی ویڈیو کی آواز محرر نے آہستہ کرکے ریورٹ لکھنا شروع کی۔