Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Tasawuf Beeti

Tasawuf Beeti

تصوف بیتی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں تازہ تازہ فرقہ واریت سے توبہ تائب ہوا تھا۔۔ اس کے بعد جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ اپنی طرف مائل کیا وہ تصوف تھا۔۔ شدت پسندی اور فرقہ پرستی سے اکتائے ہوئے انسان کے لیئے صوفی ازم کسی رومانس سے کم نہیں۔۔ مطالعے کا شوق تو شروع ہی سا تھا سو صوفی ازم کی کھوج پڑتال شروع کی۔۔ مثنوی مولائے روم کا اردو ترجمہ، بزم صوفیہ، امام غزالی کی احیائے العلوم الدین، عبدالقار جیلانیؒ کی غنیہ الطالبین، امام ابن قیم کی کتاب الروح و دیگر کتب، واصف علی واصف سمیت اردو زبان میں جو بھی چیدہ چیدہ صوفی لٹریچر میسر تھا اسے چاٹ ڈالا۔۔

اس زمانے میں بابا بلھے شاہ کی کافیاں کسی ریاض کرتے قوال کی مانند زبان پر ہوتیں۔۔ حضرت اقبال کے مشکل فارسی شعروں کی ٹانگیں بازوں توڑ کر گنگنانا مشغلہ بن چکا تھا۔۔

اس مطالعہ کے دوران کے دوران ہی شدت سے احساس ہوا کہ تصوف مطالعہ سے زیادہ عمل کا میدان ہے۔۔

تھیوری تو کافی رٹ لی تھی۔۔ اب عمل کی باری تھی۔۔

سالک کے لیئے وادی صوفیاء میں قدم رکھنے کے لیئے کسی مرشد کامل کی بیعت کرنا ضروری ہوتا ہے۔۔

سو مرشد کامل کی تلاش شروع ہوئی۔۔ میرے جیسے باغی مزاج اور بال کی کھال اتارنے والے انسان کے لیئے مرشد کامل کی تلاش اور خود کو اس کی فکری غلامی میں دے دینا آسان کام نہ تھا۔۔

سو کافی تلاش بسیار کے بعد ایک حضرت کے طفیل خود کو سلسلہ نقشبندیہ کے ساتھ منسلک کر لیا۔۔ اس سلسلہ کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ذکر خفی پر زور دیتا ہے۔۔ دل میں ہی اللہ اللہ کی ضربیں لگانا جسے یہ لوگ اس محاورے سے تعبیر کرتے ہیں۔۔ ہتھ کار ول دل یار ول۔۔

مطلب آپ دنیا کے کاموں میں مشغول تو ہوں مگر آپ کا دل خدا کی یاد میں مشغول رہے۔۔

صوفیاء نے انسان کے لیئے سات لطائف مقرر کیئے ہیں۔۔ ہاتھ کی دونوں نبضیں، دل اور دماغ وغیرہ۔۔

سب سے پہلی باری دل کی ہوتی ہے۔۔ اب کرنا یہ ہوتا ہے کہ سالک نے کسی تنہائی میں بیٹھ کر آنکھیں بند کرکے ساری توجہ دل پر مرکوز کرنا ہوتی ہے اور یہ محسوس کرے کہ اس کا دل دھڑکنوں کی فریکوئنسی کے ساتھ ساتھ اللہ اللہ کر رہا ہے۔۔ اس کے اگلے مرحلے میں نبضیں اور پھر دماغ پر بھی یہی کیفیت طاری کرنا ہوتی ہے۔۔ آخر کار کاملیت کا مرحلہ تب آتا ہے جب پورے جسم مجسم ذکر بن اللہ بن جاتا ہو۔۔

سو میں نے بھی خود کو سچا سالک گردانتے ہوئے شام ڈھلے ایک خاموش و پرسکون گوشہ پکڑ کر بیٹھ جاتا اور آنکھیں بند کر ذکر قلبی کی تپسیا کرنے لگا۔۔ اس میں مجھے کافی ترقی حاصل ہوئی۔۔

صوفی ازم میں نئے نئے قدم رکھنے والے سالک کو کشف و کرامات کا بڑا کریز ہوتا ہے۔۔ میں بھی ٹہرا ا اناڑی سالک۔۔ سو کچھ عرصہ کے مجاہدے کے بعد خود کو ابدال وقت سمجھ کر اب کشف کا انتظار کرنے لگا۔۔ اپنے ساتھ ہونے والے ہر واقعے کو باطنی دنیا سے نتھی کرکے اس کی روحانی تعبیر پیش کرنا ایک عادت سا بن چکا تھا۔۔ جس سے میرے دوست یار بڑے تنگ ہوتے تھے کیوں کہ وہ بھی میری صوفیانہ موشگافیوں سے محفوظ نہ رہ پاتے۔۔

بہر حال کرتے کراتے جب تھوڑا سا مجاہدہ پختہ ہوا تو خود ہی اندازہ ہوا کہ تصوف کسی فن کا نام نہیں ہے پریکٹس کرنے بعد کرامت کے کرتب سرزد ہونے کی امید رکھی جائے۔۔

خانقاہی دنیا اپنی نوعیت میں بڑی ہی دلچسپ دنیا ہے۔۔

یہ شریعت کے متوازی چلنے والا ادارہ ہے۔ اس کی شریعت کا نام طریقت ہے۔ خانقاہی نظام میں شیخ یا مرشد کو مرکزی حثیت حاصل ہوتی ہے۔۔ سارے کے سارے صوفیانہ اشغال شیخ کے گرد طواف کرتے ہیں۔۔ صوفی ازم کا" تصور شیخ "بھی بڑا دلچسپ ہے۔۔ آپ کامیاب سالک تب ہی تصور ہوں گئے جب آپ خیالی اور عملی دنیا میں شیخ کے کامل مطیع ہوں۔۔ اگر آپ مجاہدے میں مصروف ہیں یا ذکر و فکر کی شغل میں مگن ہیں تو ذہن میں یہ تصور آپ کو پختہ کرنا ہوگا کہ آپ اپنے مرشد کی مکمل نگرانی میں ہیں۔۔ اپنے خیالات کو بھی مرشد کے خیالی محل کا دربان بنانا ہوگا۔۔ اگر مرشد کی نافرمانی ہوگئی تو مرشد پل بھر میں عرش سے فرش پر انڈیل دیں گیے۔۔ سالک اپنے اور خدا کے درمیان شیخ کو پائے گا۔۔ شیخ ہی اسے عین الیقین سے حق الیقین کی منزل پر پہنچانے والی ہستی ہے۔۔

شیخ کی بانٹ خدائی بانٹ ہوتی ہے۔۔ اگر چاہے تو پل بھر میں مرید کو انالحق کی منزل پر پہنچا دے اور چاہے تو تجلی حق کے لیئے برسوں مرید کو ایڑیاں رگڑنے پر مجبور رکھے۔۔

میں ٹھہرا باغی مزاج انسان۔۔ جس نے اپنی خاندانی اقدار سے بغاوت کی تھی۔۔ اپنے دینی خانوادے سے بغاوت کی۔۔ عقیدت میں لتھڑے عقیدوں سے بغاوت کی۔۔ میرے ایسے انسان کے لیئے تصور شیخ کے چوکھٹے میں فٹ ہونا ناممکن سا تھا۔۔ مگر پھر بھی میں نے حق الیقین کی منزل کے لیئے جتسجو والے کیڑے کو سلانے کی بھرپور کوشش کی۔۔ مگر خود کو کسی شیخ کی فکری غلامی میں دے دینا مجھے منظور نہ تھا۔۔ کہ انسان اپنی عقل وشعور کو کسی انسان کا مطیع بنا دے۔۔

رہ رہ کر خدا کا کے تعلق کے بارے میں خیالات کی شورش آتی۔۔ آیا خدا کو مجھ سے یہی مطلوب ہے۔۔ آیا حق الیقین نام کی کوئی منزل بھی ہے۔۔ کیا خانقاہوں محبوس ہو کر مجاہدہ کرنا ہی رضائے خداوندی ہے۔۔ کیا اپنی نفسانی خواہشات اور عقل کو زنگ آلود کرنے سے ہی خدا کی محبت نصیب میں آئے گئی۔۔

آخر خدا کو اتنی خوشامد کی ضرورت کیونکر ہے۔۔ خدا اگر اتنی محبت کرنے والا ہے تو پھر اس اپنی محبت کا حصول اس نے اتنا مشکل کیوں بنا دیا کہ کوئی عاشق برسوں جاکر تپسیاکرے تو تب خدا غیب کے پردوں سے ظہور پذیر ہوکر سالک کو تجلی حق کا مشاہدہ کروائے۔۔

آپ تصوف کا لٹریچر اٹھا کر پڑھ لیں وہاں نفس کے بعد جس چیز کو انسان کا دشمن بنا کر پیش کیا گیا ہے وہ عقل ہے۔۔ صوفیاء کے نزدیک عقل انسان کو مادیت کی طرف دھکیل دیتی ہے، خدشات کا کا اسیر بنا دیتی ہے جو انسان میں یقین کامل کو پنپنے نہیں دیتے۔۔ عقل انسان کو صوفیاء کے مطابق مابعد الطبیعیاتی نظریات کو اس حثیت میں تسلیم کرنے سے روکتی ہے جس میں وہ انھیں پیش کر رہے ہیں۔۔

اب ظاہر ہے کوئی افسانوی کرامت، خرق عادت افعال اور لایعنی عقائد کے پلندے کو روحانیت کا نام دے کر پیش کرے تو اسے لوگوں سے اسے تسلیم کروانے کے لیئے ان کی عقلی صلاحیت کو زنگ آلود کرنے پڑے گا۔۔ مگر عقل کے متبادل صوفیاء نے کمال ہوشیاری سے کشف کا تصور متعارف کروایا گیا۔۔

علم لدنی کی نظریہ تیار کیا گیا۔۔ کشف اپنی نوعیت میں بڑا ہی رومانوی تصور ہے۔۔ اس کے مطابق آپ کے علم کا سورس عقل کے بجائے تکوینی یا خدائی ذرائع ہیں۔۔ نئے سالکوں کو کشف کا بڑا شوق ہوتا ہے۔۔ ہر چیز کو کشف کی بنیاد پر پرکھنے کی بھی الگ ہی ٹھرک تھی۔۔ اب ہوتا یہ کہ کوئی مسلئہ یا سوال درپیش ہوتا تو چند منٹ کے لیئے ذکر قلبی شروع کردیا اس کے بعد جو بھی لنگڑا لولا خیال دماغ میں آتا اسے کشف کا نام دے کر اپنی "ولایت" کا دھونس خود پر ہی جما دیتا۔۔

زیادہ تر سالک کشف یا کرامت کو اپنی اصل منزل سمجھ بیٹھتے ہیں۔۔ ان کے نزدیک وظیفے کرنے سے ان میں کوئی روحانی قسم کی شکتی آجائے گئی جس سی باطنی دنیا کے بے تاج بادشاہ بن جائیں گئے۔۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب مجاہدہ پختہ ہوتا جائے تو یہ تصور رفو چکر ہو جاتا ہے۔۔ تصوف کسی فن کا نام تو نہیں کہ بندہ اسے کرامت کے کرتب دکھانے کے لیئے سیکھے۔۔

بہر حال کرتے کراتے جب تھوڑا سا "پہنچا ہوا "سالک بنا تو اس کے بعد دوبارہ سے عقلی کیڑے نے تنگ کرنا شروع کر دیا۔۔

کیا خدا عقل سے اتنا خوف زدہ ہے کہ اس کے استعمال سے انسان خدا کو ہی للکار بیٹھے۔۔ اگر عقل سے خدائی عقائد کی عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے تو پھر خدانے انسان کو عقل دی ہی کیوں۔۔ i

اور سب بڑا سوال کیا تصوف مذہب کا نام ہے یا فن کا؟

ان سوالوں کے جوابات بڑے دلچسپ اور بت شکن ثابت ہوئے۔۔

جوں جوں جواب ملتے گئے میں" پہنچی ہوئی سرکار "بننے کی نوبت آنے سے اتنا ہی محفوظ ہوتا گیا۔۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam