Tableeghi Jamaat Aur Non Professionalism
تبلیغی جماعت اور نان پروفیشنل ازم
لیفٹیننٹ جنرل جاوید ناصر آئی ایس آئی کے سابقہ ڈائریکٹر جنرل تھے۔ جنرل صاحب تھے تو انجینئر کور کے اور انٹلیجنس کا تجربہ بھی صفر تھا مگر نواز شریف سے خاندانی تعلقات تھے، سن بانوے میں نواز شریف کی ایما پر آئی ایس آئی کے چیف بن گئے، جنرل جاوید ناصر خاصے مذہبی انسان تھے، باریش چہرہ، مسنون داڑھی اور مونچھیں بلکل پست۔
جنرل صاحب ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم تبلیغ جماعت سے وابستہ بھی تھے۔ شب جمعہ اور سہ روزے میں باقاعدگی سے شرکت کرتے، تبلیغی ہمیشہ سیال کی طرح ہوتا ہے جہاں چھوڑو پھیل کر اردگرد کے ماحول کو بھی تبلیغی بنانے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ جنرل صاحب بھی آئی ایس آئی کے انضمام الحق بن گئے۔
افسران پروفیشنل موڈ سے تبلیغی موڈ پر آگئے، دفتر میں نماز کا وقفہ گھنٹوں پر محیط ہوتا، بعض افسران نماز کے بہانے شارٹ ہوتے اور واپس دفتر نہ آتے، افسران اور اسٹاف سہ روزوں پر جانے لگے۔
اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ اس تبلیغی یلغار کو بھانپ گئے، انھوں نے آئی ایس آئی میں کلبلاتی تبلیغ تبلیغ کے کھیل کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور جنرل جاوید اشرف قاضی کو نیا چیف مقرر کیا۔
جنرل جاوید اشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں بہت دلچسپ انکشاف کیا۔ وہ کہتے ہیں جب میں چارج لینے گیا تو اس وقت بھی ڈل ڈائریکٹر جنرل رائیونڈ سہ روزے کے لیے گئے ہوئے تھے۔ میں نے انھیں وہاں سے بلوا کر چارج لیا اور ایجنسی سے تبلیغی کلچر کا خاتمہ کیا۔
تبلیغی جماعت انسان یا ادارے سے پروفیشنل ازم ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ تبلیغی پروفیسر نان پروفیشنل ہوں گئے۔ فزکس کی کلاس میں ذکر و اذکار کا درس دے ریے ہوں گے۔ تبلیغی ڈاکٹر آپ کو انتہا درجے کے نان پروفیشنل ملیں گئے، کلینک کو آستانہ بنا کر مریض کو میڈیسن سے زیادہ وظائف بتانے پر زور دیں گے۔ اسی طرح تبلیغی کلرک بھی نان پروفیشنل ہوں گے۔ مہینے میں دس دس دن چھٹی پر ہوں گئے اگر کسی بیچارے کا کام پھنس جائے تو تو وہ دفتر کے چکر لگا لگا کر تھک جاتا ہے آگے سے جواب ملتا ہے، صوفی صاحب تبلیغ پر گئے ہیں۔ یہاں تک انسان کو بطور فرد بھی یہ غیر ذمہ دار بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک مڈل کلاس انسان کی سب سے بڑی ذمہ داری اس کا گھر اور اس کی مکینوں کی ضروریات پورا کرنا ہوتی ہیں۔ یہی اس کا دھرم اور یہی اس کی تبلیغ ہوتی ہے۔
میں خود کئی ایسے واقعات کا شاید ہوں۔ امیر صاحب چلے یا چار مہینوں کے لئے تبلیغ پر نکل گئے۔ پیچھے گھر والوں کو توکل پر چھوڑ گئے، نہ تو ان کا کوئی پرسان حال ہوتا ہے، کئی امیر صاحبان کی بیویاں اپنے شوہر کے "چلے" کا خراج دوسروں کے گھروں میں کام کرکے گھر کی ضروریات پوری کرنے کی صورت میں ادا کرتی ہیں۔
تبلیغی جماعت کا کام بہت وسیع ہے، یہ ایک پرامن مذہبی جماعت ہے، شدت پسندی کا عنصر اس میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے، ایک بہت بڑی تعداد ان کے حلقہ بگوش ہے۔ مگر مجھے ان کے دعوتی کلچر سے اختلاف ہے، تبلیغ کرنی ہے تو اپنے علاقے میں کرو، یہ چار سو میل دور جانے کی کیا ضرورت ہے، وہاں کے تبلیغی یہاں اور یہاں کے وہاں۔
بات تبلیغی نان پروفیشنل ازم کی ہورہی تھی۔ کچھ عرصے سے تبلیغی جماعت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ بڑے فلمی اسٹارز، کرکٹرز اور سنگرز کو بھی گھیرنا شروع کر دیا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ہر جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی تبلیغ کرے، مگر کرکٹر کو اس کے پروفین سے زیادہ امیر صاحب، ڈاکٹر کو وظائف بتانے والا ملاں، میتھ کے پروفیسر کو اسلامیات پڑھانے والا نہ بنائے۔
کرکٹ میں تبلیغی جماعت کا پہلا شکار سعید انور تھے، سعید انور نے اپنا بچہ کھویا تھا، غموں کا علاج انھیں تبلیغ کی طرف لے گیا۔ اس کے بعد ایک پوری کھیپ تبلیغیوں کی تیار ہوئی، انضمام الحق، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق۔ ڈریسنگ روم کا کلچر تبدیل ہوا، پہلے پاکستانی ٹیم بڑی لبرل تھی۔ جیت پر ڈریسنگ روم میں شمپئن چلتی۔ کھلاڑی معاشقے چلاتے جس کی ایک مثال عمران خان ہیں۔
مگر دو ہزار کے بعد کرکٹ ٹیم بھی تبلیغی جماعت بنتی گئی۔ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی مگر مسلئہ تب آیا جب انضمام الحق جیسے کوچ گیم سے زیادہ تبلیغ پر زور دینے لگے۔ جو کھلاڑی تبلیغ سے بیزار ہوتا اس کے ساتھ تبلیغی کوچ یا چیف سلیکٹر نے گڑبر شروع کر دی۔ شعیب اختر بھی اس تبلیغی کھیل سے بیزار تھے اس لیے ٹیم میں اکیلے ہو گئے۔
گیم سے زیادہ اسی مذہبی تفریق نے آہستہ آہستہ کرکٹ ٹیم کو پروفیشنل ٹیم کے بجائے ایک نان پروفیشنل سہ روزے لگانا والا جتھا بنا دیا۔ جو آج ہر میدان میں سوائے سجدے کرنے کے کچھ اور اکھاڑ نہیں سکتا۔