Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Syedism

Syedism

سیدازم

یو پی انڈیا میں ایک پرانی کہاوت ہے "کل میں جولاہا تھا، آجکل میں شیخ ہوں اگر میری فصل نے غلہ زیادہ اگلا تو کل میں سید بھی بن جاؤں گا"۔ اس کہاوت میں سیدوں کی پیداوار اور برصغیر میں ذاتوں کی درجہ بندی کی ساری سائنس چھپی ہے۔

اسلام جب ہندوستان میں آیا تو اس کے کلچر کو فتح نہ کرسکا بلکہ ہندوستانی تہذیب نے ہی اسلام کو مغلوب کر لیا۔ ہندوستانی تہذیب اور اسلام کے ملاپ سے جس تہذیب نے جنم لیا اس کی ایک شاخ سید پرستی بھی ہے۔ ہندؤں میں جہاں پہلے برہمن مقدس اور اونچی ذات کا خود کو باور کرواتے تھے اسلام نے اسی برہمن ازم کو مسلمان کر لیا۔

نچلی ذات کے جو ہندو اسلامی مساوات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے تھے انھیں یہاں بھی سیدوں کی شکل میں برہمن ازم کا سامنا کرنا پڑا۔ بس فرق اتنا تھا کہ وہ دلت سے جولاہے، قصائی، نائی اور موچی بن گئے۔

سید خود کو حضرت علی کی نسل سے جوڑ کر خود کو مقدس بنادیتے اس سے ان کا سماجی رتبہ بلند ہوتا جس سے انھیں کئی معاشی اور سیاسی فوائد بھی ملتے۔ اس لیئے سید پیدواری کا دھندہ خاصا زرخیز ہوتا گیا۔ یوپی والی کہاوت کے مطابق جن جولاہوں کی فصل اچھی ہوتی گئی وہ سید بنتے گئے۔ سید پیدواری کے عمل نے مسلمانوں میں بھی دلت پیدا کرنا شروع کردئیے۔ مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہوتی گئے ایک طرف خود کو عربی النسل کہلانے والے اشراف بن گئے اور دوسری طرف ہندوستانی نسل والوں پر اجلاف کا کلنک لگا دیا گیا۔

کسی انسان کو اس کے نسب کی بنیاد پر مقدس اور کمتر قرار دینا مقام انسانیت کی سب سے بڑی توہین ہے۔ سید خود کو بہت ہی بلند تر سمجھتے۔ غیر سید سے رشتہ کرنے کو اپنی توہین سمجھتے۔ یہ کیا ہے۔ یہاں کی جاہل عوام کو دیکھیں، خود کو شودر سمجھ کر انھیں مقدس دیوتا بنا دیا۔ میں نے خود لوگوں کے منہ سے سنا ہے جو خود کو سیدوں کا کتا کہلواتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر انسان کی توہین کیا ہوگئی۔

برلن کی یونیورسٹی نے شیعب نیازی صاحب کا آرٹیکل sayyids and social stratification of Muslim in colonial India پبلش کیا تھا۔ جس باریکی سے نیازی صاحب نے ہندوستانی مسلمانوں کے بیچ ذاتوں کی درجہ بندی کو بیان کیا ہے اس کی مثال کم ملتی ہے۔ انھوں یوپی جھار کھنڈ کے قصبے امروہہ کی ذاتوں کے ڈھانچے پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ امروہہ وہی قصبہ ہے جہاں سے رئیس امروہوی اور سید جون ایلیاء تعلق رکھتے تھے یہاں خود کو سید اور عباسی کہلوانے والے کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ اسی وجہ سے امروہہ کو قصبہ سادات بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کی آبادی عربی، عجمی اور ہندی نسل میں منقسم ہے۔ عربی میں ہاشمی انصاری اور قریشی تھے۔ عجمی میں مغل اور پٹھان جبکہ ہندی مسلم آبادی پیشہ وروں یعنی جولاہوں۔ میراثیوں وغیرہ پر مشتمل تھی۔ مسلم سماج میں ذاتوں کی یہی کشمکش صرف امروہہ ہی نہیں ہر قصبے میں نظر آتی ہے۔

اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اتنی کثیر تعداد میں سادات کی ہندوستان کی جانب ہجرت کی کوئی تاریخی وجہ نظر آتی ہے۔ ہر گز نہیں۔ ہندوستان میں زیادہ تر جو سید آئے وہ ایران کے راستے آئے اور ان کی آمد کا مقصد تبلیغی نوعیت کا تھا نہ کہ آبادکاری کا۔ یہاں پر ایک اور لطیف نکتہ بیان کروں کہ جدید سید پرستی کی ایک لاشعوری وجہ یہ بھی ہے کہ برصغیر میں جتنی بھی اصلاحی تحریکیں ابھریں ان میں سے اکثر کی قیادت سید برداری کے پاس رہی۔ چاہے شاہ ولی اللہ یا شاہ اسماعیل شھید، سید احمد شہید ہوں۔ جماعت اسلامی کے سید ابوالاعلی صاحب یا صوفی سلاسل کے امیر۔

مگر یہاں سوال پر بھی اپنی جگہ قائم ہے اتنی کثیر تعداد میں سید برصغیر میں کیا کر رہے ہیں۔ ہر گاؤں محلے میں کوئی نہ کوئی سید فیکٹری لگی ہے۔ سن دو ہزار میں اس موضوع پر ایک جنیتاتی تحقیق ہوئی تھی۔ اس میں انڈیا اور پاکستان کے سیدوں کا ڈی این اے کیا گیا۔ اس کے رزلٹ حیران کر دینے والے تھے۔ جو سید خود کو ایک ہی عربی نسب سے جوڑتے ان میں زیادہ تر کا ڈی این اے عرب ڈی این اے سے میچ نہیں کرتا تھا اور اس سے بڑی حیرت ناک بات یہ تھی ہونا تو یہ چاہے تھا انڈیا پاکستان کے سیدوں کے y chromosomes کا گروپ ایک جیسا ہوتا کیونکہ دونوں کا سلسلہ نسب ایک تھا مگر یہ تشویشناک بات تھی کہ لکھنو کے سید اور پنچاب کے سید کے ڈی این اے میں وہی فرق نظر آرہا تھا جو ایک مغل اور آرائیں کے ڈی این اے میں آنا چاہیے تھا۔

بعد ازاں اسی جینیاتی تحقیق پر Else MS bellie نے The y chromosomes of self identified sayyids in indo pak sub continent کے نام سے مقالہ لکھا۔ یہ مقالہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ گوگل پر موجود ہے۔ اس کے مطابق بیشتر سیدوں کا ڈی این اے halplo group j1 j2 سے تعلق رکھتا ہے جو سینٹرل ایشیائی لوگوں کا ہوتا ہے نہ کہ عربی لوگوں کا۔ اس کی تاریخی وجہ بھی نظر آتی ہے۔ ہندوستان میں بیشتر مسلم اشرافیہ سینٹرل ایشیا سے وارد ہوئی جو بعدازاں برہمن ازم کے اثر تلے سید بن گئے۔

یہی ہندوستانی مسلمان کا تہذیبی مسئلہ رہا ہے وہ اپنی ہندوستانی نسبت سے ہمیشہ بھاگا کبھی وہ خود کو نیل کے ساحل سے جوڑتا رہا کبھی غرناطہ سے تو کبھی سمر قند بخارا سے اور جس فخر سے پاکستان کے مسلمان اپنے شجرے سینٹرل ایشیاء اور عرب سے جوڑتے ہیں اس سے یہی گمان ہوتا ہے کہ عربی اور ترکستانی حملہ آوروں نے برصغیر کو گائنی وارڈ بنا رکھا تھا جہاں وہ بچے پیدا کرنے آتے تھے۔

Check Also

Na Milen Ke Bharam Qaim Rahe

By Rauf Klasra