Sunni Iran Se Shia Iran Tak
سنی ایران سے شیعہ ایران تک
الموت حسن بن صباح کی بسائی گئی پراسرار دنیا تھی جس کا ذکر عنایت اللہ کے شہرہ آفاق ناول داستان ایمان کی فروشوں میں ملتا ہے۔ منگولوں کی یلغار نے جہاں بغداد کے عباسیوں کا بوریا بستر گول کیا، ایران کے حاکم خوازمیوں کو بھی چلتا کیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ الموت کے حشیشین کا دھڑن تختہ بھی ہلاکو خان نے کیا وہ حشیشین جن ہر ہاتھ ڈالنے سے سلطان صلاح الدین ایوبی بھی کتراتا تھا۔
منگول جتنے بڑے فاتح تھے اتنے ہی اناڑی منتظم تھے۔ وہ سلطنتوں کو فتح کرنا جانتے تھے انھیں چلانا نہیں۔ وہ قبضہ کرنا جانتے تھے مگر حاکمیت کے اسرار و رموز سے نا واقف تھے، اس لیئے جہاں بھی منگول گئے۔ وہ کوئی مضبوط centralized حکومت نہیں بنا پائے۔ اسی وجہ سے ان کی یلغار کے بعد یہ مفتوح شدہ علاقے کسی مرکزی طاقت کی غیر موجودگی کے باعث مختلف تحریکوں، جاگیروں اور گروہوں کی ملکیت میں منقسم ہو گئے جو کسی مرکزی حکومت کا تقاضا کر رہے تھے۔ اس تقاضے کو ترکی میں عثمانیوں نے اور ایران میں صفویوں نے پورا کیا۔
صفوی کون تھے، یہ کیسے اقتدار میں آئے، کیوں فقہ حنفی اور شافعی کا مقلد ایران سالم اثناء عشری شیعہ میں بدل گیا۔ اس سب کو سمجھنے سے پہلے ایران میں تصوف کے کردار کو سمجھنا ہوگا، کیونکہ تصوف ہی وہ کڑی تھی جس نے حنفی ایران کو شیعہ ایران میں بدل دیا۔
ایران میں کسی مرکزی طاقت کی غیر موجودگی نے بہت سی تحریکوں کو جنم دیا یہ تحریکیں اپنی نوعیت میں مذھبی بلکہ صوفیانہ تھیں۔ ایران اس وقت سنی تھا، ایرانی فقہ حنفی اور شافعی کے مقلد تھے، ان پر تصوف کا بھی غلبہ تھا ویسے بھی تصوف ایرانی مزاج میں رچا بسا تھا۔ اس دور میں جن صوفیانہ تحریکوں نے جنم لیا ان میں سے زیادہ پراثر حروفیت کی تحریک تھی جس کے بانی فضل اللہ استرآبادی تھے، حروفی عربی اور فارسی حروف کی مافوق الفطرت تعبیریں کرتے اور ان کے باطنی معنی نکالتے، اس تحریک کو ایران میں بے پناہ مقبولیت ملی، اور حروفیت کے بطن سے دیگر صوفی سلسلے نقطوی، مشا شائی، سربردری وغیرہ نکلے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے یہ سارے صوفی سلسلے سنی تھے نہ کہ شیعہ۔
تحریر کے شروع میں، میں نے الموت کا ذکر کیا تھا، الموت کے منگولوں کے ہاتھوں خاتمے کے بعد نظاری اسماعیلی دربدر ہو گئے تھے، وہ بھی کسی نئے مرکز کی تلاش میں تھے ان کو سب سے موزوں جگہ ایران لگی، کسی مضبوط مرکزی حکومت سے محروم اور جڑیں پکڑتے صوفی سلسلے ایک آئیڈیل جگہ تھی اسماعیلیوں کے لیے، چونکہ نظاری اسماعیلیوں کی باطنیت صوفیوں کی باطنی دنیا سے مشابہ تھی، اس لیے نظاری اسماعیلیوں نے تصوف کی آڑ لے کر تبلیغ کرکے اپنا ایک وسیع حلقہ اثر پیدا کر لیا۔
انسٹیوٹ آف اسماعیلی اسٹڈیز نے The Renaissance if shia Islam کے نام سے کتاب چھاپی ہے جس کے مصنف فرہاد دفتری ہیں انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اپنی کتاب میں کہ الموت کے خاتمے کے بعد نظاری اسماعیلیوں نے تصوف کی آڑ میں ایران کو بامشرف شیعہ کیا۔
مگر ایران کے شیعہ ہونے کا یہ عمل کئی صدیوں پر محیط ہے۔ حروفیت کی تحریک نے جو چنگاری سلگائی تھی وہ آتش فشاں شیخ شیخ صفی الدین ادریبلی کے صفوی سلسلے کی شکل میں بنی۔ صفوی بنیادی طور پر ایک سنی صوفی تحریک تھی جو ایران میں پنپتے صوفی ازم کا تسلسل تھا مگر شیخ کی اولاد میں شیخ حیدر صوفیوں کی اس تحریک کو سیاسی اور عسکری رنگ دے دیتا ہے شیخ حیدر اثناء عشری عقائد سے متاثر تھا جو ایران میں اسماعیلیوں نے تصوف کے انجکشن کے زریعے داخل کیئے تھے۔
شیخ حیدر نے خرقہ پوش صوفیاء کے ہاتھوں میں ہتھیار پکڑا دیے، یہ تاریخ کے واحد ملی ٹینٹ صوفی تھے، صفوی سلطنت کی بنیاد انہی ملی ٹینٹ صوفیوں نے رکھی تھی۔ صوفیوں کی یہ تنظیم بعدازاں قزلباش کی شکل اختیار کر گئی، جو بنیادی طور ترکمنستان کے سات قبائل کا الحاق تھا، قزلباش شیعہ ازم کے بہت قریب تھے، ان پر اثناء عشری عقائد کا غلبہ تھا قزلباش نے ہی صفوی سلطنت کی بنیاد رکھی، یہ بلا کے جنگجو تھے، انھوں نے تاتاری خوانین کو اکھاڑ کر صفویوں کی راہ ایران میں ہموار کی۔
یوں شیخ حیدر کا بیٹا اسماعیل اول پہلا صفوی سلطان بنا۔ صفویوں کو مختلف سلسلوں اور مذہبی تحریکوں میں منقسم ایران کے لیے کوئی مرکزی مذھب چاہئے تھا، شیعہ ازم اور صوفی ازم کے ملاپ نے ویسے بھی ایران میں شیعیت کی قبولیت کے لیے راہ بھی ہموار کر دی تھی، کئی بڑے صوفی سلسلے مستقبلِ میں صفویوں کے لیے خطرہ بھی بن سکتے تھے، اس لئے صفویوں نے اثناء عشری شیعہ ازم کو ایران کا سرکاری مذہب بنا دیا، اس نے بعد انھوں نے تمام صوفی تحریکوں کا بوریا بستر گول کر دیا تاکہ یہ مستقبل میں اثنا عشری شیعہ ازم کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔
اسماعیلیوں کے ہاں ستر کے زمانے کا تصور ہے، یہ وہ دور ہوتا ہے جب ان کے پاس کوئی حکومت نہ ہو، اور یہ مغلوبیت کی زندگی گزار رہے ہوں، اس دور میں ان کا امام بھی غائب ہوتا ہے، یہ تقیہ بھی کرتے ہیں علم کو کتابی کے بجائے سینہ بہ سینہ منتقل کرتے ہیں۔ صفوی سلطنت کی اٹھان کے ساتھ ہی دور ستر ختم ہوگیا تھا اسی دور میں اسماعیلیوں کی پہلی کتاب ابو اسحاق قسطانی نے ہفت باب ابوالااسحاق کے نام سے لکھی۔ دور ستر کا خاتمہ ہوا اور ایران میں شیعہ ازم کو ریاستی مذھب کا درجہ مل گیا۔ صفویوں میں ایرانیت تھی، انھوں نے خالص ایرانی ادارے بنائے، انھوں نے مدراس بنائے جہاں شیعیت کی تبلیغ کی جاتی، عرب سے بہت بڑی تعداد میں سادات صفویوں نے امپورٹ کروائے تھے شیعہ ازم کی تبلیغ کے واسطے۔
ایران میں صفویوں کے بعد شیعہ ازم کی اٹھان انقلاب ایران کے بعد ہوئی۔ انقلاب کی فضاء ایران میں استاد مطہری اور ڈاکٹر علی شریعتی جیسے لوگوں نے تیار کی تھی جسے امام خمینی نے ہائی جیک کر کیا۔ امام خمینی ایران کے مودودی تھے، وہ بھی سیاسی اسلام کے قائل تھے سید قطب اور مودودی سے متاثر تھے ان کے دور میں سید قطب، مودودی اور راشد رضا کی کتابیں فارسی میں ترجمہ ہو کر ایران میں تقسیم ہوتیں۔
آج کا ایران جدید شیعت کا چوغہ پہن کر امت مسلمہ کی ٹھیکیداری کی کرسی سے سعودیہ کو ہٹا کر خود بیٹھنا چاھتا ہے کیا پتہ اس دفعہ ایران کو نیا قزلباش کون ملے۔