Thursday, 21 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Saqafti Ilhad

Saqafti Ilhad

ثقافتی الحاد

مذہب سے فرار کا جواز سائنس اور فلسفے سے بہتر کلچر کے زریعے ہی دیا جا سکتا ہے، مذھب سائنس کا موضوع نہیں، یہ فلسفے کا بھی مسلئہ نہیں، مذھب کلچر کا موضوع ہے، مذھب فلسفے کی گتھیاں نہیں سلجھایا کرتا، نہ ہی مذھب سائنسی تھیوریز کے اثبات یا رد کے لئے وجود میں آیا ہے، یہ تو عوام کو فلسفیانہ اور سائنسی ذہنی مشقت سے بچانے کے واسطے وجود میں آتا ہے۔

اس کی اٹھان فلسفیانہ نہیں ہوتی، یہ کسی کلچر میں آتا ہے، نبیوں، اتاروں کا بھی ثقافتی بیک گراؤنڈ ہوا کرتا ہے، مذھب ایک مشترکہ ثقافت پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے جو آگے چل کر کسی تہذیب کی بنیاد بنتا ہے۔

ہم نجانے کیوں الحاد پر بات کرتے ہوئے بیگ بینگ کے پلندے کھول کے بیٹھ جاتے ہیں، یہ سائنسی الحاد تو ہو سکتا ہے جس میں تنگ نظری بہت ہے مذہب کی طرح، فکری عنانیت بہت ہے، یہ انسان کو سماج سے فرار کرواتا ہے، یہ انسان کا کنکشن کلچر سے کاٹ کے اسے ایک مشین بنا کے رکھ دیتا ہے، یہ انسان میں جذبات کا بحران پیدا کر دیتا ہے، سائنسی الحاد بلیک اینڈ وائٹ کے اصول پر کام کرتا ہے سائنس کی طرح، انسان کبھی بلیک اینڈ وائٹ ہو نہیں سکتا وہ ان دونوں کے درمیان سرگرداں ہے۔

الحاد کو ثقافت ہی افورڈ کر سکتی ہے، ثقافتی الحاد مذھب سے فرار نہیں کرواتا، یہ مذھب کا مطلق انکار نہیں کرتا بلکہ اسے کلچر کا ایک جز تسلیم کرتا ہے، یہ معاشرتی تنظیم میں مذھب کے وجود کو بہت بڑا کریڈٹ دیتا ہے، بس فرق یہ ہے کہ یہ مذھب کو کلچر کی پراڈکٹ سمجھتا ہے، ثقافتی الحاد کو بیگ بینگ اور کن فیکون کی بحثوں سے کوئی عرض نہیں، اسے ارتقاء اور تخلیق کے مباحث سے دلچسپی نہیں، اسے مذھب سے یہ مسلہ نہیں کہ کیوں اس نے گلیلیو کی آسمانی مشاہدات کے نتائج پر اعتراض کیا تھا، اسے کسی کے مندر جانے یا کسی کے مسجد جانے پر بھی اعتراض نہیں، یہ مذھبی عبادات کو بسئی ثقافتی رسوم کا درجے دے کر ان کی جگہ تسلیم کرتا ہے۔

یہ انسانوں کے وجود کی مافوق الفطرتی نہیں تہذیبی تعبیر کرتا ہے، یہ سوال اٹھاتا ہے کہ انسان کے تہذیبی ارتقاء کے ساتھ اس کے تصور خدا میں ارتقاء کیوں کر ہوتا رہا، تصور خدا کو آگ اور پتھروں سے نکل کر ساتویں آسمان تک پہنچنے میں اتنا وقت کیوں لگا، یہ تصور خدا کو کلچر کے تابع بناتا ہے، ثقافتی الحاد اقوام کے مزاج کی ان کے تصور خدا پر اثرات کی تشخیص کرکے مذھب کو انسانی ساختہ ثابت کرتا ہے، جیسے لوگ ہوں گے ویسا تصور خدا تراشیں گے، قبائلیوں کا خدا ان کی طرح سخت مزاج اور جنگجو ہوگا، کاریگروں کا تصور خدا بہت ہی بڑا کاریگر ہوگا جس نے نہایت باریکی سے یہ کائنات بنائی۔

ثقافتی الحاد تصور خدا کا انکار نہیں کرتا، یہ اسے کلچر کی ایک سرپلس ویلیو سمجھتا ہے، یہ ملحد کا رابطہ مذھبی رسوم سے بھی نہیں کاٹتا، جس کی وجہ سے سائنسی ملحد کے برعکس ثقافتی ملحد میں جذبات کے بحران کا خدشہ نہیں پیدا ہوتا۔ اس میں سائنس کی طرح صرف عقلیت پسندی کا بھوسہ نہیں بھرتا، یہ خدا کی جگہ کلچر کا بہت بڑی طاقت مانتا ہے۔

کلچر میں وسعت بہت ہوتی ہے، جس کی وجہ ثقافتی ملحد ردِعمل کی نفسیات کا شکار نہیں ہوتا، اس میں سائنسی ملحد کی بہ نسبت قبولیت زیادہ ہوتی ہے یک دم مذھب کا انکار باہر کی دنیا کے ساتھ ساتھ اندر کی دنیا میں بحران پیدا کر دیتا ہے، انسان ردعمل میں آکر بہت سے پنگے چھیڑ بیٹھتا ہے جس کا متھجث معاشرے سے فرار ہثی صورت میں نکلتا ہے، ثقافتی الحاد آہستہ آہستہ مذھب کو رسوم کا درجہ دے دیتا ہے، یہ یہ نہیں کہتا کہ مادی ترقی میں مذھبی سوچ بہت بڑی رکاوٹ ہے، بلکہ مادی ترقی کو فکری ارتقا کا ماخذ مانتا ہے۔

ثقافتی الحاد کے اٹھان میں ابھی بہت وقت درکار ہے، لوگ جب اپنے وجود کی سائنسی تعبیر سے بور ہوں گے تو کلچر کی طرف بھاگیں گے، سائنسی تعبیر کائنات جتنی میکانکی ہے اور ثقافتی تعبیر وجودیت اتنی ہی آرگینک ہے۔

مستقبل ثقافتی الحاد کا ہے۔

Check Also

Alfaz Ki Taqat

By Adeel Ilyas