Sunday, 29 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Pervaiz Sahab

Pervaiz Sahab

پرویز صاحب

غلام احمد پرویز سے پہلا تعارف بطور منکر حدیث ہوا تھا۔ یہ تعارف پختہ ہوا عبد الرحمن کیلانی کی کتاب آئینہ پرویزیت پڑھ کے اور مزید سریا سمینٹ کا کام کیا اس تعارف کو مضبوط کرنے میں الھدی انٹرنیشنل اسلام آباد کے دورہ تفسیر القرآن نے۔ چونکہ ہمارے استاد محترم ڈاکٹر ادریس زبیر صاحب پر حدیثی مزاج غالب تھا۔ ڈاکٹر صاحب قرآن کی تفسیر حدیث کی روشنی میں کرتے تھے تو حدیث کا رنگ ہم ایسے ان کے شاگردوں پر چڑھ جاتا۔ آئینہ پرویزیت کو دوسری بار الھدی اسلام آباد کی لائبریری میں پڑھا تھا۔

پھر ایک دن پرویز کی ایک کتاب من و یزداں ہاتھ لگ گی۔ من و یزداں حدیث کے متعلقات کو ذہن میں لے کر نہیں پڑھی تھی مگر من و یزداں میں پرویز کے اسلوب تحریر اور برموقع اقبال کے اشعار کے استعمال نے ایسا متاثر کیا کہ اس کے بعد اسباب زوال امت، شاہکار رسالت، انسان نے کیا سوچا، مقام حدیث، سلیم کے نام خطوط پڑھ لیں۔

متحدہ ہندوستان کی ہوم منسٹری میں کلرکی کے عہدے پر رہنے والے مسٹر پرویز میں ایک ملاں پرویز بھی چھپا بیٹھا تھا۔ ایک جینز پہنا کلین شیو ماڈرن ملاں۔ مگر یہ ملاں باہر نکالنے میں قائد اعظم اور اقبال کا بڑا ہاتھ تھا۔ اقبال نے پرویز کو قائد سے متعارف کروایا۔ قائد اعظم چاہتے تھے کہ پرویز مسلم لیگ کے دو قومی نظریے کو اسلامی رنگ دے کر بیان کریں۔ قائد کی ایما پر پرویز نے رسالہ طلوع اسلام جاری کیا۔

آزادی کے بعد پرویز نے حکومت پاکستان کو جوائن کر لیا اور کیبنٹ کے اسسٹنٹ سیکریٹری مقرر ہوئے۔ باخبر لوگ بتاتے ہیں پرویز واحد ایسے شخص تھے جو قائد سے بنا اپوائنٹمنٹ کے ملنے گورنر ہاؤس پہنچ جاتے تھے۔

پرویز کا سیاسی اسلام مولانا مودودی سے بھی بڑا تھا مگر اسے ان کا تصور حدیث لے ڈوبا۔ پرویز نے اپنے سیاسی اسلام کو اشتراکیت کا کلمہ پڑھوا دیا تھا۔ نظام ربوبیت پرویز کی خلافت تھی۔ جہاں ذرائع پیداوار ریاست کی ملکیت میں ہوں گے۔ پرویز نے اسلام کے نظریہ مساوات کو کھود کھاد کے اور حضرت عمر کے زمین کے حقوق کی پالیسیوں سے اسلامی سوشلزم نکال تو لیا مگر مسلمانوں کی مین سسٹریم سے اسے ہضم نہ کروا سکے۔ پرویز کے نزدیک جنت کوئی مابعد الموت مابعدالطبیعاتی جگہ نہیں ہے بلکہ جس معاشرے میں برابری ہوگی، حرص اور سرمائے کے حصول کا مقابلے نہ ہو وہ جگہ جنت ہے۔

پرویز کا سب سے اہم کام لغات القرآن کے بعد احادیث پر ہے۔ حجت حدیث پر سرسید، اسلم جیراج پوری، عبداللہ چکڑالوی اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے بھی لکھا مگر پرویز نے جو کام کیا وہ مذکورہ حضرات میں سے کوئی نہ کر سکا۔ پرویز کی کتاب مقام حدیث منکرین حدیث کے لیئے انجیل کا مقام رکھتی ہے۔ حجت حدیث پر اعتراض کے حوالے سے وہ کتاب حرف آخر ہے۔ پرویز کے دلائل سے اختلاف ضرور رکھا جاسکتا ہے مگر انکار نامکمن ہے۔

پرویز احادیث کو عجمی سازش کہتے تھے جسے ان کے نزدیک عجمی محدثین نے قرآن کے خلاف بطور سازش لانچ کیا تھا۔ پرویز نے حدیث کا انکار ہر گز نہیں کیا تھا بلکہ ان احادیث کا انکار کیا جو قرآن کے خلاف تھیں۔ امام بخآری نے چھ لاکھ احادیث میں سے فقط چھ ہزار کا انتخاب کیا۔ امام بخآری باقی کی پانچ لاکھ پچانوے ہزار احادیث کا انکار کرکے بھی امام ہیں اور پرویز چند سو احادیث کا انکار کر منکر حدیث کیونکر ہوگیا۔

پرویز تصوف کے سخت خلاف تھے۔ تصوف کو مسلمانوں میں جڑیں جمائے جمود اور بے عملی کی وجہ سمجھتے تھے پرویز کے خیال میں جہاں جہاں مسلمانوں کر زوال آیا تصوف نے وہاں وہاں مسلمانوں کے لیئے بطور افیون کام کیا۔

پرویز کو حضرت عمر سے خاصی انسیت تھی ان کی زندگی پر شاہکار رسالت کے نام سے کتاب لکھی۔ سوانح عمر میں الفارق سے بھی بڑھیا کام پرویز نے شاہکار رسالت میں کیا۔ پرویزکے نزدیک رسالت کا ماسٹر پیس حضرت عمر کی شخصیت تھی۔ سیرت پر پرویز نے معراج انسانیت لکھی یہ غالبا واحد ایسی کتاب ہے سیرت پر جس میں سیرت کو تاریخی روایات کی مدد کے بغیر صرف قرآن کی روشنی میں بیان کیا گیا۔

اسباب زوال امت پرویز کی ایک گراں قدر کتاب ہے۔ پرویز کے مطابق اسباب زوال امت کی وجہ مسلمانوں کا نظریہ آخرت ہے۔ اس کے مقابل پرویز نے اینا تصور آخرت دیا۔

تقدیر کے مسلئے پر ان کی کتاب کتاب التقدیر آئی۔ پرویز نے مسلئہ تقدیر پر سوالات پر مشتمل خط مولانا مودودی کو لکھا تھا وہ خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پرویز نے مولانا سے پوچھا کہ قران میں جبر و قدر کا تضاد کیونکر ہے۔ ایک طرف خدا یضل من یشاء ویھدی من یشاء کہہ کر انسان کو تقدیر کا محتاج بناتا ہے اور دوسری طرف فمن شاء فلیؤمن فمن شاء فلیکفر کہہ کر لوح قلم سے آزاد کر دیتا ہے۔ یہ تضاد کیونکر ہے۔ مودودی صاحب نے پرویز کے سوالات کے جوابات میں جبرو قدر کے نام سے کتاب لکھی۔ مسلئہ تقدیر کو سلجھاتے سلجھاتے مودودی صاحب کہیں خود ہی الجھ گے تھے۔

پرویز کا بڑا کارنامہ انسان نے کیا سوچا کتاب تھی۔ موسی سے لے کر مارکس تک کے فلسفے ایک کتاب میں کنگھالنا محص پرویز کے ہی بس کا تھا۔ بہترین نثر میں پیچیدہ فلسفوں کو مہارت سے بیان کیا گیا ہے اس کتاب میں۔

لغاتِ القرآن میں غالباً پرویز جیسا کام اردو میں کسی نے نہیں کیا۔ یہاں پرویز سرسید کی طرح قرآن کی عقلی تفسیر کرتے تھے۔ معجزات کی عقلی توجیہہ کرتے تھے۔ اس عقلی تفسیر میں پرویز نے کئی بڑے بلنڈر کیئے جو نہ تو قرآن کے سیاق وسباق سے مطابقت رکھتے تھے اور نہ رسالت سے۔ اس کی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔

سلیمانؑ کے محکوم جنوں کا ذکر قرآن میں کیا ہے اللہ نے وہ ان کے کیئے تعمیرات کیا کرتے تھے۔

پرویز جنوں کو غیر مرئی مخلوق تسلیم نہیں کرتے تھے۔ ان کے نزدیک جن کا لغوی مطلب وہ چیز ہے جس پر پردہ ہو یا چھی ہوئی ہو۔ مجنون بھی جن سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے عقل پر پردہ پڑ جائے۔ جن سے مراد وہ لوگ تھے جو بدو یا دیہاتی تھی جو شہروں سے اوجھل ہوتے۔ سلیمانؑ کی تعمیرات بھی وہی جن یا دیہاتی لوگ کیا کرتے تھے۔

جن کا مفہوم بیان کرتے ہوئے قرآن کی بنیادی نصوص کا انکار کر بیٹھے۔ دیہاتی یا بدوؤں کے لیئے قرآن میں الاعراب کا الفاظ الگ سے استعمال کیا ہے اور دوسری بات جن کا لفظ اللہ نے انسان کے متوازی ایک الگ مخلوق کے لیئے استعمال کیا ہے۔ من الجنتہ والناس۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے لغت القرآن کا کیا حشر کیا ہوگا پرویز نے۔

بہرحال پرویز کا اسلام وہ جینز پہنا کلین شیو مولوی تھا جسے نہ تو مولوی نے اپنی مسجد میں گھسنے دیا، نہ صوفی نے خانقاہ میں اور نہ سیاست دان نے پارلمینٹ میں اور پرویز اپنے جدید مگر تنہا تعبیر اسلام کے سمیت اس دنیا سے چل بسے۔

Check Also

Adam Tawazun (2)

By Rao Manzar Hayat