Sunday, 29 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Pakistan Nama

Pakistan Nama

پاکستان نامہ

ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے پہلی بار ہندوستان میں قدم رکھا۔ مسلمان یہاں اقیلت میں تھے مگر اس کے باوجود اٹھارویں صدی تک یہاں کے حاکم رہے، اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ مسلم حکمرانوں نے کبھی اپنی ہندو رعایا کے مذہب میں دخل دینے کی کوشش نہ کی اور نہ ہی مذہبی تفریق سے کام لیا۔ مسکم حکمرانوں کے ہاں بڑے بڑے عہدے ہندوؤں کو دیئے جاتے۔ یہاں تک مغلوں کے لشکرکے توپ خانے کے انچارج تک ہندو ہوتے۔

مسلمان حکمرانوں کے اپنے ہندو ماتحتوں پرعتبار کا یہ عالم تھا کہ نواب سراج الدولہ کا جو لشکر لارڈ کلائیو کے خلاف لڑا تھا اس کا سپہ سالار میر مدن جو ایک ہندو تھا۔ حکمرانوں کی یہی سیکولر پالیسیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمان باوجود اقلیت کے اٹھایویں صدی تک حاکم رہے۔

جہاں ہندو و مسلم ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے مل جل کر رہتے۔ یہ سب یونہی چلتا رہا اور پھر اٹھارویں صدی آگئی۔ یہاں سرسید احمد خان کی انٹری ہوتی ہے۔ سرسید کا کہنا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جن کی اپنی اپنی تہذیبی شناخت ہے۔ اس نظریئے کو دو قومی نظریئے کا نام دیا گیا۔

سرسید کے دوقومی نظریے کے لگائے گئے بیچ میں سے کونپلیں اس وقت پھوٹنا شروع ہوئیں جب شملہ کانفرس کے نتیجے میں مسلمانوں کو جداگانہ انتخابات کا حق دے دیا گیا۔ اسی حق کی بدولت اب ہندوستانی ہندو اور مسلم میں تقسیم ہونا شروع ہوگئے۔ میثاق لکھنؤ، تحریک خلافت میں گاندھی جی کی شمولیت اور گاندھی کی سیکولر پالیسیاں اس تقسیم کو روک پاتیں کہ ایک رات حکیم الامت حضرت اقبال سرسید کے دو قومی نظرئیے کی گولی کھا کر سوئے جب وہ اٹھے تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے جس میں، میں ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مسلم قومی ریاست ابھرتے ہوئے دیکھی، جس میں مسلمان آزادی سے اپنے تہذیبی ورثہ کی حفاظت اور اس کی ترقی وترویج کر سکیں۔

چونکہ اقبال نے خواب میں شمال مغربی حصے کو پاکستان بنتے دیکھا ان کے خواب میں مشرقی پاکستان نہیں آیا۔ اسی لیئے اقبال کا پاکستان بنانے کے عزم لے کر مشرقی پاکستان کو ہمیشہ ہمیش کے لیئے اکتہر میں الگ کر دیا۔ خیر چھوڑیے۔

اقبال کے خواب کے بعد قائد اعظم کی انٹری ہوتی ہے جو اقبال کے خواب کو پورا کرنے لیئے میدان میں اترتے ہیں۔ قائد کا فرمانا تھا کہ ہندوستان میں صرف ہندوستانی نہیں بلکہ ہندو و مسلم رہتے ہیں۔ جو دو الگ الگ قومیں ہیں۔ جن کی تہذیب، مذہب، عبادات ہر چیز ایک دوسرے سے جدا ہے۔ اس لیئے مسلمانوں کو الگ وطن کی ضرورت ہے جس میں آزادی سے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو سکیں۔

قائد پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔ انھوں اس مہم میں اپنی وکالت کے جوہر خوب دکھائے۔ جس پر یوسفی نے کہا تھا "کتنا عظیم وکیل جس نے ثابت کر دیا کہ گزشتہ آٹھ سو سال سے اکٹھے رہنے والے ہندو اور مسلمان اب اکٹھے نہیں رہ سکتے"۔

بہر حال وکیل کی وکالت رنگ لائی اور وکیل نے ثابت کر دیا صدیوں سے اکٹھا رہنے والے مسلمان اب مزید اکٹھا نہیں رہ سکتے۔ مگر وکیل کی دوراندیشی پر وکالت غالب آگئی۔ تین جون کے منصوبے اور ریڈ کلف مشن میں وکیل نے ایسا کٹا پھٹا ملک قبول کیا جو دو حصوں میں منقسم تھا۔ جن میں سولہ سو میل کا فاصلہ تھا۔ سب سے خاص بات ان دونوں حصوں میں سوائے مذہب کے کوئی چیز مشترک نہ تھی۔ مگر وکیل کا کہنا تھا کہ مذہب ہی وہ واحد کڑی ہے جو ان دو حصوں کو متحد رکھے گی۔ بہرحال پاکستان بن گیا اور قائد اس کے گورنر جنرل۔

مگر قائد کے پاس سوائے اپنی شخصیت کے کچھ نہ تھا جس سے وہ نوائیدہ مملکت کا نیا نظام تشکیل کرپاتے۔ ان کی جماعت مسلم لیگ نوابوں کے سیاسی شغل کا آلہ تھی نہ کہ ایک عوامی جماعت، جو عوامی سطح پر انیس سو چالیس کے بعد متحرک ہوئی۔ سات سال بہت کم عرصہ ہوتا ہے کسی سیاسی جماعت کے قائدین کے لیئے سیاسی تربیت کا۔ یہی وجہ ہے کہ قائد کو کہنا پڑا کہ "میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں"۔

پاکستان بنے کے ساتھ ہی قائد کی صحت جواب دینے لگی اور وہ زیارت منتقل ہو گئے۔ یہاں پر کھوٹے سکے قائد کی آنکھیں بند ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ اس کا ثبوت فاطمہ جناح کی وہ یاداشت ہے جو انھوں نے تب لکھی جب لیاقت علی خان زیارت میں قائد کی تیمار داری کے لیئے آئے تھے۔ جس پر قائد نے کہا۔۔

"فتی: یہ میری تیمارداری کے لیئے نہیں آیا بلکہ یہ دیکھنے آیا ہے کہ میں کتنا عرصہ اور زندگی رہ سکتا ہوں"۔ اس واقعی کی مزید تفصیل قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں درج کی ہے۔

خیر آگے چلتے ہیں۔ کھوٹے سکوں نے قائد کی تیمار داری کے لیئے جو سفید ڈالا (ایمبولینس) بھیجی وہی قائد کی موت کی وجہ بنی۔ اس کے بعد یہی کھوٹے سکے پاکستان کے مالک بنے اور افسوس کے کھوٹا پن اگلی نسل کو بھی منتقل کر گئے۔ آج بھی ملک انہی کھوٹے سکوں کو بھگت رہا ہے۔

Check Also

Hamare Rawaiye

By Khateeb Ahmad