Motivational Fraud
موٹیویشنل فراڈ
میرے دوست کو اپنا کاروبار کرنے کی کھرک تھی، اکثر مجھے کہتا دیکھو یار! کاروبار نسلیں سنوارتا ہے، نوکری سے بس ضرورتیں پوری ہوا کرتی ہیں۔
مجھے پتہ تھا کہ اس طرح کے سنہری اقوال کی آمد موٹیویشنل قسم کے سپیکروں کو سن اور دیکھ کر اسے ہو رہی تھی۔ مجھے جب بھی کاروبار کے فضائل اور نوکری کے رذائل سناتا میں پورے خشوع وخضوع سے سنتا۔ کیونکہ میں کسی کو مشورہ نہیں دیا کرتا یہ کرو، کیونکہ عمل اس نے گھنٹہ ہی کرنا ہوتا ہے۔ بہر حال ہمارے دوست نے اچھی بھلی نوکری چھوڑی، اور نسلوں کو سنوارنے کے واسطے کاروبار کے لیے میڈیم سائز کا سیٹ آپ شروع کر دیا۔
شروع شروع میں تو تھوڑا بہت موٹیویشنل سپیکروں کے دیئے گئے بھاشنوں سے صبر کیا، مگر جلد ہی پتہ لگ گیا کتنے بیس کا سو ہے۔ چھ مہینے بعد ہی نسلیں سنوارنے والی کھرک ختم ہوگئی، دوکان کا سارا سامان کوڑیوں کے بھاؤ بیچا، اچھا خاصا سرمایہ تیل کروانے کے بعد مجھ سے پوچھا تم نے مُجھے کیوں نہیں بتایا کہ یہ سب ہوگا۔
میں نے اسے کہا میرے مشورے سے تمھیں گھنٹہ سمجھ آتی جتنی اب آئی ہے۔ اب وہ نسلوں کو سنوارنے والے مشن سے توبہ تائب ہو کر زندگی گزانے کے لیئے جگہ جگہ جاب کے لئے سی ویاں دے رہا ہے۔
اپنا ماننا ہے بعض لوگ کاروبار کرنے کے لیئے ہوتے ہیں اور بعض لوگ ملازمت کرنے کے لیے، بعض اچھے ملازم ہوتے ہیں اور بعض اچھے کاروباری، ملازم اور بزنس مین کے اسی توازن سے معیشت چلتی ہے، ہر بندہ کاروبار کر نہیں سکتا، اس کے لیے ایک خاص قسم کی نفسیات درکار ہوتی ہے۔
یہ سیلف ہیلپ اور موٹیویشنل سپیکرز تھوک میں پکوڑے تل کر ہر کسی کو بل گیٹس بننے کے خواب دکھا رہے ہوتے ہیں۔
جس نے کاروباری بننا ہوتا ہے وہ How to become a rich جیسی کتابیں پڑھے بغیر بھی کاروباری بنتا ہے۔ اسے Rich Dad، poor dad جیسی کتابوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔
یہ موٹیویشنل انڈسٹری خوابوں کی سوداگر ہے، یہ آپ کو بتائیں گے آپ ریڑھی لگا کر بھی مکیش امبانی بن سکتے ہیں۔ یہ آپ کو بتائیں گئے دنیا میں کوئی کام بھی ناممکن نہیں، یہ آپ کو بتائیں گے آپ کے اندر کوئی نہ کوئی ایک ٹیلنٹ ضرور چھپا ہوا ہے، یہ سیلف ہیلپ کے جغادری آپ کی اندر موٹیویشن کی وہ ہوا بھر دیں گے، آپ چاہت فتح علی خان ہوں گئی مگر خود کو تان سین یا لتا منگیشکر سے کم نہیں سمجھیں گے۔
میں نے قاسم علی شاہ کے پاکستان میں لانچ ہونے سے پہلے ڈیل کارنیگی اور ٹونی روبنز کی کچھ کتابیں پڑھ رکھیں تھیں، یہ سیلف ہیلپ اور موٹیویشنل انڈسٹری کے گرو تھے، انڈیا اور پاکستان کے موٹیویشنل سپیکرز اور ان کی سڑک چھاپ کتابیں تو بس ڈیل کارنیگی اور زیگ ذیگلیر کا ہندی اور اردو چربہ ہیں۔
موٹیویشنل لٹریچر کے ساتھ میرا بنیادی اختلاف ہی یہی ہے کہ یہ بہت مشینی قسم کا ہے، جذبات میکانکی نہیں ہوتے اور نہ ہی انسان کوئی ایک ہی ردھم کے ساتھ چلنے والی مشین ہے کہ وہ سیلف ہیلپ مینوئل کے تحت زندگی گزارے۔
کامیاب لوگوں کی سات عادات جیسی کتابوں میں جو الغم بلغم لکھتا ہوتا ہے، ان میں سے ایک چتیاپہ بھی کامیاب لوگوں میں نہیں ہوتا۔ Think and grow Rich جیسی کتابیں پڑھ لگتا ہے کامیابی کسی فیکٹری میں تیار ہونے والی کوئی پراڈکٹ ہے، جس کا ایک مشترکہ فارمولا ہے، ایسا نہیں ہوتا بھئی، کامیابی ایک پیچیدہ عمل ہے، سو کامیاب انسان جیسی کتاب پڑھ کر ہم خیالوں کی دنیا میں بل گیٹس تو بن سکتے ہیں مگر ان ہزاروں ناکام انسانوں کو نہیں دیکھتے جنھوں نے کامیابوں سے زیادہ اپنی گھسائی ہوئی ہوتی ہے۔
میں کسی کو مشورہ نہیں دیتا کہ ڈپریشن سے نکلنے کے لیئے سیلف ہیلپ کی کتاب پڑھو، وہ الٹا اور ڈپریشن میں چلا جائے گا، ڈیل کارنیگی کی سوچنا چھوڑو اور جینا شروع کرو جیسی کتابوں کا طریقہ واردات خاصا دلچسپ ہوتا ہے، پہلے عمومی قسم کی تمام انسانی خامیوں کا مصالحہ تیار کریں گے، اب اورر تھنکنگ ہر بندہ کرتا ہے، منفی سوچیں ہر بندے کو آتی ہیں، مستقبل کا انجانا خوف ہم سے ہر بندے کو ہوتا ہے، ماضی کی تلخ یادوں کا کھنڈر ہم سے ہر کسی میں آباد ہوتا ہے۔
اب بندے کی پھٹ کر ہاتھ میں آرہی ہو اور ڈیل کارنیگی کا پتر آکر کہے سوچنا چھوڑو اور جینا شروع کرو، مثبت باتوں سے مالش کیا کرو۔ تو کیا بندہ ڈپریشن سے نکل جائے گا بلکہ احساس کمتری کا شکار ہو اور قنوطیت کا مریض بن جائے گا۔ مثبت سوچیں کوئی بجلی کا بٹن تھوڑی ہی ہوتی ہیں آن آف کرنے سے آتی جاتی رہتی ہیں۔
آخر کار موٹیویشنل اور سیلف انڈسٹری انڈسٹری کی بنیاد پڑی کیسے۔ یورپ میں پربا ہونے والے صنعتی انقلاب نے پیدواری کا عمل خاصا تیز کر دیا تھا۔ اس صنعتی تیزی نے مقابلے بازی کے عمل کو بھی تیز کر دیا تھا، competition جو بنیادی طور پر ہے ہی سرمایہ داری کی روح، اسی مقابلے بازی کو کسی اخلاقی جواز کی بھی ضرورت تھی، ادھر ڈارون ازم کی سرواوئیول آف دی فٹسٹ کی بائیولوجیکل تھیوری صنعتی مارکیٹ کا مذہب بنتی جا رہی تھی، ایسے میں لوگوں کو capitalism کا شعوری کلمہ پڑھانے کے لیے ضروری تھا کہ انھیں انفرادیت پسندی کی تبلیغ سیلف ہیلپ کے پیرائے میں کی جائے۔
صنعتی کارپوریٹ نے زندگی کے طریقے بدل دئیے تھے، ہر بندہ امیر ہونے کی خواہش رکھتا تھا، ہر کسی کو پر اثر شخصیت بننے کا چسکہ تھا، اسی چسکے کو اس موٹیویشنل انڈسٹری نے پورا کیا اور آگے چل کر یہی سیلف ہیلپ کا کاروبار سرمایہ داری نظام کا ایک اخلاقی پہیہ بنتا گیا، جب گریٹ ڈیپریشن جیسی آفات سرمایہ دارانہ نظام کو جھٹکا دیتیں، لوگوں کو اس نظام پر مطمئن رکھنے کا ٹھیکہ سیلف ہیلپ کے پاس ہوتا۔ سیلف ہیلپ اتنی بڑی انڈسٹری بن چکی ہے کہ صرف امریکہ میں چار بلین ڈالر کا منافع پیدا کر تی ہے۔ اس انڈسٹری کا بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ۔ لوگوں کو کامیابی کے طریقے بتا کر امیر بننا ہے، اسی لیے کرسٹوفر بکلی نے بڑے دلچسپ انداز میں طنز کرتے ہوئے کہتا ہے
The only way to get rich from self help book is to to write one.
اب تو خیر موٹیویشنل انڈسٹری سے بور ہوئے لوگوں کو نیا چونا بزنس ڈیولپمنٹ کورسز بیچ کر لگایا جا رہا ہے، آخر کار ان کورسز کے فارغ التحصیل حضرات یا تو آن لائن شھد فروش بن کر خجل ہوتے ہیں یا تو فیس بک پر خالص چترالی سلاجیت بیج رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ایک نئی کھپ ان موٹیویشنل سپیکرز نے روحانیت کا تڑکہ لگا کر ڈالی یے۔ قاسم علی شاہ کے ہتھے واصف علی واصف اور بابا اشفاق چڑھ گئے، اب وہ ہر سیشن میں سیلف ہیلپ کے بھاشن قطرہ قطرہ قلزم اور تلقین شاہ سے دیتا ہے، اب سامعین اس کشمکش میں ہوتے ہیں، شاہ صاحب ہمیں ملنگ بنانا چاہ رہے ہیں یا کامیاب بزنس مین، اسی طرح کے ایک اور صاحب شیخ عاطف ہیں، وہ تو خیر موٹیویشنل سپیکرز کے خادم رضوی بنتے جارہے ہیں، کامیابی کے طریقے کم اور آیات کا ورد زیادہ کرتے ہیں، گمان ہوتا ہے بندہ بزنس ڈیولپمنٹ کے سیشن میں نہیں درس نظامی کے درجہ پنجم میں بیٹھا ہے۔ خالص شھد اور دودھ ملنا تو دور ہمیں موٹیویشن بھی خالص نہیں ملتی۔
اس لئے سیلف ہیلپ اور موٹیویشن کے بکھیڑوں میں پڑے بغیر زندگی کو اسی کے رنگ میں جئیں۔ مثبت باتوں اور سیلف ہیلپ کے چکر میں زندگی اور سرمایے کو تیل نہ کروائیں۔