Mashriq Ka Mulhid
مشرق کا ملحد
مشرق کا الحاد آج وہاں کھڑا ہے جہاں مغرب کا الحاد تین سو برس پہلے کھڑا تھا۔ الحاد کا سفر خاصا کٹھن ہوتا ہے، فرد سے معاشرے تک، افراد سے ریاست تک، مذہب سے فرار اتنا آسان نہیں ہوتا، افراد ملحد ہو سکتے ہیں مگر ریاست نہیں، ریاست کی مذہب سے بغاوت کی آخری حد سیکولرزم ہے، فرد کی آخری حد الحاد ہے۔
مغرب کا الحاد خاصا میکانکی ہے، الحاد کو مذھب سے فرار کے واسطے فکری جواز اور مادی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، مغرب کو فکری سہارا فلسفے نے اور مادی سہارا صنعتی انقلاب نے فراہم کر دیا، مادی سہارا یعنی صنعتی انقلاب کا عمل اتنا تیز اور پر اثر تھا کہ افراد سے لے کر ریاست کے مزاج میں بھی الحاد کی ملاوٹ کر دی، صنعتی انقلاب نے اس الحاد کو سائنسی الحاد بنا دیا، سائینس میں جتنی گہرائی تھی، جتنی پیچیدگیاں تھیں سائنسی الحاد میں اتنی ہی سطحیت اور میکانکیت تھی۔
مشرق کا ملحد ابھی سٹرلنگ دور میں ہے، اس کے پاس فکری سہارے تو ہیں مگر مادی سہارے سے محروم ہے۔
مغرب کے الحاد نے عیسائیت جیسے ایک منظم مذھب کے خلاف بغاوت کی تھی، جس میں مذھب کلیسا جیسے مضبوط ادارے کی شکل میں اپنا وجود رکھتا تھا، جس میں پوری ایک منظم چین آف کمانڈ تھی، اس کے ردعمل میں جو الحاد وجود میں آیا وہ بھی خاصا منظم تھا، مغرب کے الحاد میں تنظیمی رنگ زیادہ نظر آتا ہے۔
مشرق میں سوائے اسلام کے کوئی منظم مذھب نہیں ہے، ہندو مت بے شمار ہندوستانی روایات کا مجموعہ ہے، کنفیوشزم منظم مذھب کے بجائے ایک ڈھیلے ڈھالے فلسفے کی حثیت رکھتا ہے، بدھ مت اسی کا بھائی ہے، جو آسمان سے زیادہ زمین پر زور دیتا ہے، رہ گیا اسلام، اسلام مذھبی طور پر خاصا منظم مذھب ہے، جس میں ایک سپریم اتھارٹی ہے، اپنے تمام پیرو کاروں کے لیے قابل حجت صحیفے بھی ہیں، مگر اسلام ابھی سیاسی طور پر پانچ صدیاں قبل کے چرچ کی طرح طاقتور نہیں ہے۔
اس لیے مشرق کے الحاد میں تنوع بہت ہے، مغرب کے الحاد میں یکسانیت ایک ایسا عنصر ہے جس نے اسے سطحی اور خاصا بورنگ بنا دیا ہے، کیونکہ مغرب کا الحاد صرف ایک بڑے مذھب سے فرار تھا۔
مشرق کے الحاد کے پاس بہت آپشن ہیں۔ ہندو مت میں ناستک (non believer)کے لیے بھی جگہ ہے، چائنہ کے کنفیوشزم نے یہ ثابت بھی کر دیا ہے، اسلام میں ملحد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، منظم مذہب سے فرار بہت مشکل ہوتا ہے، ہندو مت اور بدھ مت کی طرح اسلام کی مافوق الفطرتی تعبیر کائنات ڈھیلی ڈھالی نہیں ہے، بلکہ اسلامی تعبیر میں شدت ہے، اصرار ہے، تحکم ہے، یہ اپنا آپ امر باالمعروف سے اوروں پر نافذ کروانا چاہتی ہے، اس لیے اسلام سے فرار ہندومت اور بدھ مت سے زیادہ مشکل ہے۔
منظم مذھب منظم ریاست کی طرح اپنے باغی کے خلاف سخت ردعمل دیتا ہے، مذھب جتنا منظم ہوگا الحاد اتنا ہی فرسٹیڈ ہو کر شدت اختیار کرے گا، عیسائیت جتنی منظم تھی، الحاد کی تحریک کبھی وجودیت تو کبھی اور شکل میں اس کے اس کے بخیے اسی شدت سے ادھیڑتی رہی۔
مذھب ہندو مت کی طرح جتنا شانت ہوگا، جتنے اس کے سیاسی عزائم کم ہوں گے، اوروں پر اپنا آپ مسلط کرنے کی سکمیں کم ہوں گی اتنا ہی کول اور ٹہرا ہوا الحاد وجود میں آئے گا۔
مشرق کے الحاد میں مجھے خاصا پوٹینشل نظر آتا ہے، یہ ابھی تشکیل کے مراحل میں ہے، چاروکا جیسے فلسفیوں نے اس کی بنیادیں بہت پہلے رکھ دیں تھیں مگر charvaka کی فکر کو کوئی کوپر نیکس، کوئی نطشے کوئی سارتر نہیں مل سکا، بیرونی حملہ آور یہاں فوج کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے مذاھب بھی لاتے تھے، یہ اچھی بات ہو سکتی تھی کہ ایک زیادہ مذاھب کے آنے سے سماج میں تنوع ہوتا، نظریات کے تبادلے سے جمود ٹوٹتا، فکر کی نئی راہیں ہموار ہوتیں مگر یہاں برصغیر تنوع کے معاملے میں فریزر بن کر رہ گیا، مختلف مذاھب پانی کی طرح ایک ہی فریج میں اپنے اپنے خانے میں جم کر رہ گے، جب یہ برف پگھلی تو بھگتی تحریک جیسی تحریکیں اس مذھبی تنوع کو کچھ نیا رخ دینے کی کوشش میں کامیاب ہوتی کہ سب کیے کرائے پر مجدد الف ثانی اور ان کی راسخ العقیدگی نے پانی پھیر دیا۔
مسقبل کا مشرق ملحد مغربی ملحد سے خاصا بہتر ملحد ہوگا فکری طور پر، مشرق میں سائنسی الحاد کے پروان چڑھنے کا کوئی سکوپ نہیں ہے، یہاں cultural atheism پروان چڑھنے کے لیے مٹی زرخیز ہے، سائنسی الحاد میں سائنس کی طرح سرد پن ہوتا ہے، فیکٹ کی طرح بوریت ہوتی ہے، الحاد تو رویے کا نام ہے، رویے کو صیح معنوں میں ثقافت ہی افورڈ کر پاتی ہے، یہاں مشرق کے ملحد کو مادی سہارا صنعتی انقلاب کی صورت میں نہیں ملے گا، مشرقی ملحد کی یہی محرومی اس کے الحاد کو نئی فکری جہتیں عطا کرے گی۔ جس کی اوج ثریا ثقافتی الحاد ہوگا۔
خدا کا انکار سائنس سے کرنا مغالطے پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے، سائنسی الحاد میں تنگ نظری بہت ہوتی ہے، مذھب کی طرح مطلقیت بہت ہوتی ہے یہ مذھب کو بلکل بھی جگہ نہیں دیتا، یہ مذھب کو بلکل مائنس کر دیتا ہے، مگر ثقافتی الحاد میں بہت وسعت ہے، یہ مذھب کو مائننس بلکل بھی نہیں کرتا، یہ مذھب کو کلچر کا انتہائی اہم اور بنیادی رکن سمجھتا ہے، یہ اخلاقیات کا کنکشن مذھب سے کاٹتا نہیں ہے، بلکہ اس کا جائز کریڈٹ مذھب کو بھی دیتا ہے، ثقافتی الحاد میں ٹھہراؤ اور گہرائی ہے، اس میں میکانکیت سے زیادہ جذبابیت ہے، سائنسی الحاد جہاں انسان کو فیکٹ اینڈ فیگرز کی ایک مشین بنا دیتا ہے وہی ثقافتی الحاد انسان کو انسان رہنے دیتا ہے، اس میں جذبات کی گرمی برقرار رکھتا ہے، اس کے کلچر چاہے وہ مذھبی کی کیوں نہ اس سے تعلق برقرار رکھتا ہے۔
مگر ابھی مشرق کے ملحد کو بہت سی راہوں سے گزرنا ہے، ابھی تو وہ اس کنارے پر کھڑا ہے جہاں مغرب کا ملحد تین سو سال پہلے کھڑا تھا۔