Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Marx Beeti

Marx Beeti

مارکس بیتی

باپ سب سے بڑا کمیونسٹ ہوتا ہے، وہ گھر کے لیے زرائع پیداوار کما کر لاتا ہے، جو گھر کے تمام افراد میں ان کی ضرورت کے مطابق برابر تقسیم ہو جاتے ہیں، چاہے بچہ لائق ہو یا کند ذہن، وہ خوبصورت ہو یا بدصورت، بیوی اخلاق والی ہو یا لمبی زبان والی، سب کو اس کی کمائی سے حصہ ملتا ہے۔ بنیادی طور پر انسان سرمایہ دارانہ نظام کی مدد سے پیسہ کما کر اشتراکی طرز پر خرچ کرتا ہے۔

گھر کے اندر انسان کمیونسٹ ہوتا ہے، زرائع پیدوار اس کی نہیں گھر کی ملکیت ہوتے ہیں، سب کما کر گھر میں لاتے ہیں اور سب کی کمائی گھر کے افراد آپس میں بانٹ کر زندگی کی ٹھرک پوری کرتے ہیں۔ مگر گھر کے باہر انسان پورے دنوں کا capitalist ہے، اس کی ذاتی ملکیت ہے، اس کا ہنر ہے جس کو وہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرکے پیسہ کماتا ہے نہ کہ ریاست کے واسطے، ہم یوں کہہ سکتے ہیں انسان گھریلو سطح پر اشتراکی اور سماجی سطح پر سرمایہ دار ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے گھر کی چار دیواری سے باہر قدم رہتثے ہی انسان میں ایڈم سمیتھ اور قارون کی روح کیوں حلول کر جاتی ہے اور مارکس کی آتما منہ تکتے رہ جاتی ہے۔

اس کا سادہ سا جواب یہ ہے اشتراکیت خاندان یا قبیلے کی سطح تک کامیاب ہوتی ہے، ایک تو خاندان یا قبیلے میں لوگ کم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے زرائع پیداوار کی تقسیم اشتراکی طرز پر ہونا نسبتاً آسان ہوتا ہے، اور دوسرا خاندان کی سطح تک انسانوں کے گروہ میں عصبیت بہت مضبوط ہوتی جس کی وجہ سے قبیلے کے سارے افراد ایک دوسرے کے لیے اپنی ذاتی ملکیت کو بارضا سرینڈر کر دیتے ہیں مگر جوں جوں انسانی گروہ کا دائرہ قببلے سے پھیل کر ریاستی ہوتا جاتا ہے ایک تو اس میں عصبیت کم ہوجاتی ہے اور دوسرا بڑی انسانی آبادی کی معاشی پیچیدگیوں کو اشتراکی طرز کی معاشی تقسیم ہر گز نہیں نکیل ڈال سکتی۔ سید سبط حسن نے موسی سے مارکس تک لکھ کر اشتراکیت کا اتمام حجت پورا کرنے کی کوشش تو ضرور کی مگر وہ گھسیٹ کر افریقہ کے قبائل اور مسیحی راہبوں کا اشتراکی رہن سہن ہی ثابت کر پائے مزدکیت کا حوالہ دیا مگر مزدکیت کی ناکامی پر پردہ ڈال گئے، بقول اقبال

دست فطرت نے کیا جن گریں انوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو

بابل سے کر نیل تک، یونان سے لے کر روم تک بڑی تہذیبیں کیوں نہ اشتراکی عیاشی سے پروان چڑ سکیں۔ افلاطون کی اشتراکیت کیوں یوٹوپیا کی سرحد عبور کرکے حقیقی دنیا میں آسکی۔

میرا کارل مارکس سے پہلا تعارف خاصا مارکس شکن تھا جو مولانا وحید الدین خان کی کتاب اسلام اور سوشلزم پڑھ کر ہوا تھا، خان صاحب مارکس کے ناقد تھے اور مجھے ماکس سے چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگتا تھا مگر بعدازاں سبط حسن اور علی عباس جلالپوری کی کتابیں پڑھ کر وہ تلخی دور ہوگئی، پھر کمیونسٹ مینوفیسٹو کے مطالِعے نے چے گویرا بنا دیا، مزدوروں میں خواہ مخواہ کی طلسماتی طاقت نظر آنے لگی جن کے ہتھوڑے کی ضرب کلیم سے ہی بورژوا کے پر شکوہ محلات کے کنکر گریں گئے، مارکس اور اینگلز کو پڑھتے ہوئے واقعی ایسا محسوس ہوتا ہے۔

مگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا مارکس کے سوشلزم پر جو تنقید پروفیسر ارشاد صاحب نے کی ہے اردو میں مجھے اس کی نظیر نہیں ملتی، میں بہت ہی کم کسی تحریر سے متاثر ہو پاتا ہوں، جب میری نظر سے پروفیسر ارشاد کی علی عباس جلالپوری کی کتاب پر تنقید جو ماہنامہ فنون پر شائع ہوئی تھی وہ گزری تو چونک گیا اس سے اگلا جھٹکا تب لگا جب معلوم ہوا کہ پروفیسر ارشاد اور میں ایک ہی شہر سے ہیں۔ تو پچھلے مہینے ہی ڈھونڈ کر اس گمنام فلسفی کے چرن چھوئے۔

پروفیسر صاحب اپنے مقالے میں ایک بہت عمدہ نکتہ بیان کرتے ہیں۔ مارکس پیدا جرمنی میں میں ہوا زندگی کا بڑا حصہ انگلینڈ میں گزارا مگر اس کے نظریات کو قبولیت مشرقی یورپ اور روس میں ملی اور اس کی وجہ ارشاد صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ مشرقی یورپ اور روس بازنطینی چرچ کی پکڑ مضبوط تھی، چرچ کا ڈسپلنڈ اشتراکی ڈسپلنڈ جیسا ہی سخت ہوتا ہے اس لیے سوشلزم وہاں اپنی کڑواہٹ کے باوجود سرایت کر گیا"۔

مگر اس کے ساتھ ایک اور بات بھی ہے، چرچ کے ڈسپلنڈ سے زیادہ کردار بھوک اور افلاس کا ہوتا ہے اشتراکی انقلاب کے واسطے، یہ بھوکے ننگے لوگوں کا نظام ہے، جب امیر اور غریب کی جیب میں فرق بہت زیادہ ہو، جہاں امیر سنگ مرمر کی کوٹھیوں میں اور شیش محلوں میں طاؤس و رباب کی محفلیں سجائیں اور غریب گھانس پھونس کی جھونپڑی میں ان کے مجلسی قہقہوں اور قیمتی برتنوں کے کھنکنے کی آواز آدھ بھرے پیٹ کے ساتھ سنے تو وہ سوچتا ہے کہ یہ معاشی ناانصافی کیونکر ہے، جہاں مذھب کا زور ہو وہاں پرولتاریہ یا مزدور اپنی حالت کا ذمہ دار خدا کو قرار دے کر مطمئن ہوجاتا ہے، مگر جہاں مذھب کمزور ہو وہاں تقدیر کی افیون کی عدم دستیابی کے باعث سرمایہ دار ہی پرولتاریہ کو اپنی غربت کا ذمہ دار لگنے لگتا ہے، وہ خدا سے تو مزدور کر نہیں سکتا مگر سرمایہ دار سے تو لڑ سکتا ہے پھر وہ وہی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں مذھب مضبوط تھا اس لیے تقدیر کی افیون نے لوگوں کو اشتراکی انقلاب برپا نہ کرنے دیا مگر چین میں مذھب کمزور تھا۔ مارکس نے مینوفیسٹو میں لکھا ہے کہ

"ذاتی ملکیت صرف بورژوا کی ختم کی جائے گی نہ کہ مزدور طبقے کی"۔ (comunist menefesto, part 2page 24)

اس لیے غالباً میخائل الیگزینڈروچوف نے اشتراکیت کے بارے میں کہا تھا۔ dictatorship of labour class..

میرے نزدیک انقلاب سیاسی مشت زنی کا نام ہے جسے مارنے کے بعد افسوس ہی کیا جاتا ہے، روس اور چین نے توبتہ النصوح کی، کیوبا ابھی راستے میں ہے کیونکہ امیر سے چیھن کر انقلاب برپا کرنے والے رابن ہڈ صرف فلموں میں اچھے لگتے ہں۔ حقیقی دنیا میں انقلابی لٹیرے کچھ خاص نہیں اکھاڑ پاتے۔

انقلابی ساری زندگی ردِعمل کی نفسیات سے نہیں نکل سکتا، وہ طاقت تو حاصل کر لے گا مگر اس کی انقلابی ٹھرک پوری نہیں ہوگی، سرمایہ دار visionary ہوتا ہے، لیبر، مشین اور سرمائے کے ملاپ سے پراڈکٹ صرف سرمایہ دار ہی پیدا کر سکتا ہے یہ سرپھرے انقلابیوں کے بس کی بات نہیں، جب جب انقلاب کی مشت زنی ہوتی ہے انقلاب سے توبہ کروانے کے لیے فرانس میں نپولین بوناپارٹ آٹھ کھڑا ہوتا ہے اور روس میں گورپا چوف۔

Check Also

Class Mein Khana

By Rauf Klasra