Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Kya Islam Aman Ka Mazhab Hai

Kya Islam Aman Ka Mazhab Hai

کیا اسلام امن کا مذہب ہے

"یہ لڑائی صرف دولت اسلامیہ کی نہیں یہ لڑائی سارے مسلمانوں کی ہے، پوری دنیا کے کفار کے خلاف، مسلمانوں کو چاہیے وہ ہجرت کریں اور ہمارے ساتھ کافروں کے خلاف لڑائی میں شامل ہوں"۔

یہ الفاط ابوبکر ال بغدادی کے ہیں، جس نے کفار کے خلاف لڑائی کے نام پر داعش جیسی تنظیم کی بنیاد رکھی اور دولت اسلامیہ کے نام پر جو کانٹھ کیے وہ دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے۔

آپ میں سے نوے فیصد لوگ کہیں گے کہ ان بغدادیوں کا تعلق اسلام سے نہیں ہے، اسلام تو امن کا مذہب ہے، کیا واقعی اسلام امن کا مذہب ہے، ہمیں بار بار یہ باور کروانے کی ضرورت کیوں کر محسوس ہوتی ہے کہ اسلام کا امن مذہب ہے، امن باور نہیں کروایا جاتا، وہ خود بخود اپنا آپ منواتا ہے۔ کیوں اسلام کو ریلیجن آف پیس باور کروانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بیسویں صدی سے قبل تک تو اسلام امن کا مذہب ہے کا سلوگن ہزار سالہ تاریخ میں کہیں نہ آیا، اس وقت تو عثمانی امپیریل ازم بھی تھا، مغل بھی انڈیا پر قابض تھے، عباسی اور اموی بھی تھے، ایوبی اور صلیبی جنگیں بھی جوبن تھیں، مملوک بھی کفار سے لڑنے میں مصروف تھے۔

اٹھارہویں اور بیسویں صدی میں ہیومن ازم اور لبرلزم نے جو فضاء تیار کی تھی عالمی سطح پر، ہمارے بیشتر مسلم مفکرین کو اس فضا کے لئے اسلام کو مصنوعی طور پر قابل قبول بنانے کی سوجھی۔ پہلی بار اسلام امن کا مذہب ہے کا سلوگن ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے 1930 میں استعمال کیا، جسے انھوں نے اپنی کتاب The religion of Peace میں بطور ٹائٹل استعمال کیا، اس کتاب کی اشاعت میں خواجہ حسن نظامی کا بنیادی کردار تھا۔

اس کے بعد جوں جوں مسلمان دم درود سے بم بارود والے بنتے گئے یہ ٹائیٹل بکثرت استعمال ہونے لگا۔

اسلام کبھی امن کا مذہب نہیں رہا، اسلام کے ڈھانچے میں امن و نرمی نہیں، یہ قوت و جبر کا دین ہے، اسلام وہی ہے جو ابو بکر بغدادی اور لا دن کے خطبات میں نظر آتا ہے، اسلام تامرون باالمعروف وتنھون عن المنکر کی تعلیم دیتا ہے، معروف یعنی نیکی کا حکم دینا ہے اس کی تبلیغ نہیں کرنی، حکم میں طاقت ہوتی ہے، جبر ہوتا ہے، نرمی ہرگز نہیں ہوتی، آپ کتنی مرضی اس پر امن کی چادریں چڑھائیں، کوئی نہ کوئی لادن کوئی نہ کوئی ملا عمر، کوئی قادری، کوئی ترکھان، کوئی رضوی یہ چادریں کھینچ لیتا ہے۔

مودودی صاحب نے اپنی کتاب الجہاد فی الاسلام میں ایک لاجواب جملہ لکھا ہے، مودودی نے اس وقت بغیر لگی لپٹی اسلام کے تصور جہاد کو بڑی قوت سے پیش کیا جب ہماری فکری اشرافیہ جہاد فی النفس کے ہومیو پیتھک جہاد کا درس دینے میں مصروف تھی۔ مودوی صاحب لکھتے ہیں اپنی کتاب میں۔

"دعوت دین میں ایک ایسا مرحلہ بھی آتا ہے جب لوگوں کے دماغ سے خطاب کرنے سے پہلے ان کے جسموں سے خطاب کرنا ضروری ہو جاتا ہے"۔

جسموں سے وہ خطاب کیا ہے اس کی تفسیر سورۃ الانفال میں موجود ہے، جسموں سے خطاب کرنے کے لئے کفار کے پور پور ہر ضرب لگانی ہے، ان کے انگ انگ پر تلواریں مارنی ہیں، سورۃ توبہ میں فرمایا۔

"کفار کو ذلیل کرکے ان سے جزیہ لو"۔

یہ ہوتا ہے جسموں سے خطاب۔ جو چیز جیسی ہے ایسے وہی کیوں نہیں پیش کیا جاتا، اس معاملے میں قرآن کو بھی نہیں چھوڑا ہم نے۔ جو کھلے دماغ سے سورۃ الانفال اور توبہ کو پڑھ لے وہ کبھی اسلام کو امن کا مذہب نہیں قرار دے سکتا، پورا کا پورا جنگ کا مینوفیسٹو ہمیں عطا کیا گیا ہے۔ اسلام قوت کا تقاضا کرتا ہے، ریاستی طاقت کا مطالبہ کرتا ہے تبھی آپ سو کوڑے لگا سکیں گئے، شرعی حدود کا نفاذ کر سکیں گے۔

شیخ رمضان البوطی شام کے ایک بڑے اسکالر گزرے ہیں تعلق اہلسنت سے تھا وہ اکثر کہا کرتے تھے۔

"اسلام امن کا مذہب ہے یہ کہنا بلکل غلط ہے یہ مغرب کی سازش ہے اسلام کے خلاف کہ مسلمان کو امن کی افیون پلا کر کمزور کر دیا جائے"۔

اپنی کتاب فقہ السیرۃ میں شیخ لکھتے ہیں"جو مسلمان جہاد سے ڈرتا ہے وہ خود کو "اسلام امن کا مذہب ہے "کا فریب دیتا ہے"۔

جارج بُش نے نائن الیون کے بعد امریکہ میں اٹھنے والے اسلامو فوبیا کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یہ بیان دیا تھا کہ "اسلام امن کا مذہب ہے"۔

اردن کے معروف مبلغ ابو قتادہ نے بش کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ "کیا بش کوئی عالم ہے (جو اسلام کو خوامخواہ امن کا مذہب باور کروا رہا ہے)۔

آپ اسامہ بن لادن کے خطاب اٹھا کر پڑھ لیں جو اسلام وہاں آپ کو وہاں نظر آئے گا وہ حقیقی اسلام ہے آپ لاکھ چلائیں اس کا تعلق ہمارے مذہب سے نہیں ہے، آپ کو بار بار باور ہی کیوں کروانا پڑتا ہے، آخر کوئی نہ کوئی وجہ تو ہے۔

مذہب کے نام پر قتل کرنے والے آخر مسجد سے ہی نکلتے ہیں نہ کہ چرچ سے، خود کش دھماکہ کرکے معصوم لوگوں کے چیتھڑے اڑانے والے کو اتنی موٹیویشن ولیم شیکسپیئر کی نظمیں پڑھ کر تو نہیں ملتی کہ وہ اپنی جان داؤ پر لگا دے۔

آخر کچھ نہ کچھ تو ہے۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam