Kapuros
کپورس
کپورس یہودیوں کے ہاں مذہبی رسم ہے، اس رسم کو ادا کرنے کے لئے بکری یا مرغی کو ذبح کیا جاتا ہے، ذبح کرتے وقت توریت کی book of Psalms سے آیات بآواز بلند پڑھی جاتی ہیں، پھر ذبح شدہ جانور کو رسم ادا کرنے والے کے سر کے اوپر لٹکا دیا جاتا ہے۔
یہود کے ہاں عقیدہ ہے اس طرح قربانی کرنا ان کے گناہوں کا کفارہ ہے، جب وہ مذبوح کو لٹکا کر اس کے نیچے کھڑے ہوں گے تو اس سے ان کے گناہ ذبح شدہ مرغی یا بکری میں منتقل ہو جائیں گئے۔
نیپال میں گڈھ مائی کا مندر ہے، نیپالی ہندوؤں کے ہاں بھی قربانی کا تصور ہے، گڈھ مائی کے مندر پر ہر پانچ سال بعد بھینس یا بکرے کی قربانی دی جاتی ہے۔
سانٹریا کیوبن مذہب ہے، کیوبا کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکہ میں بھی اس کے خاصے پیروکار ہیں۔ یہ مذہب ہسپانوی آبادکاروں کے لائے گئے رومن کیتھولک ازم اور امریکہ کی مقامی رسومات کے ملاپ سے وجود میں آیا۔ سانٹریا ازم میں بھی جانوروں کو ذبح کرنے کا تصور موجود ہے، وہ لوگ orishas جو موت کی روحیں ہیں ان کے لیئے جانوروں کی بلی چڑھاتے ہیں۔
مجھے سخت کوفت ہوتی ہے جب کوئی روشن خیال یا لبرل ہونے کے زعم میں عید الاضحی پر قربانی کے تہوار کو ظالمانہ یا غیر انسانی قرار دیتا ہے، یاقربانی کے پس منظر میں سے منطقی موشگافیاں برآمد کرکے اس کے حق میں یا خلاف دلائل کا انبار لگا دیتا ہے۔
میرا ماننا ہے تہواروں کی کھوپڑی میں دماغ نہیں ہوتا، وہ کسی منطق کی پیروی نہیں کرتے، نہ تہوار فلسفیانہ ہوتے ہیں کہ آپ ان سے عقلی موشگافیاں برآمد کر سکیں، تہوار یا رسوم بس منائی جاتی ہیں، ان کے کلیجے میں جذبات یا عقیدت کی وابستگی ہوتی ہے۔ جہاں جذبات ہوں یا ثقافتی وابستگی کے تحت کوئی کام کیا جارہا ہو وہاں فلسفیانہ انگلی نہیں کی جاتی۔
جو قربانی کے تہوار کو فضول کہتا ہے، اسے اس بنیاد پر پھر ہر تہوار کو فضول کہنا ہوگا، جسے یہ تہوار غیر انسانی لگتا ہے اسے معلوم ہونا چاہے کہ وہ تہوار جو انسانی تہذیب کا ایک بڑا حصہ منا رہا ہے وہ عین انسانی ہی ہے نہ کہ غیر انسانی۔ اگر وہ غیر انسانی فعل ہے تو پھر انسانی کیا ہے۔ ایک سیکنڈ کے لیے مذہب کو سائیڈ کر دیتے ہیں۔
جانوروں کو ذبح کرنے کا تہوار ثقافتی بنیادوں پر بھی منایا جاتا ہے۔ youlan dog meat festival چین کا ایک تہوار ہے، جو ہر سال چین کے شہر یولان میں منایا جاتا ہے اس میں ہزاروں کتوں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ کیا یہ بھی غیر انسانی ہے۔ کیوبا سے لے کر چین تک ہر تہذیب میں کہیں نہ کہیں ذبیحہ کا تصور ہے، میں مذہبی بنیادوں پر اس کا دفاع ہر گز نہیں کر رہا، نہ میں نے کبھی مذہبی عقائد کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔
میرا صرف یہ سوال ہے اگر قربانی غیر انسانی اور ظالمانہ فعل تو کیا اتنی تہذییں یہ فعل کس بنیاد پر کر رہی ہیں، کیا انسانیت مر گئی ہے یا یہ فعل ہی فطرتی ہے۔
حراری نے کیا خوبصورت بات کی ہے۔ "ہم انسان کہانیوں پر لڑ رہے ہیں، دنیا کی بڑی جنگیں کہانیوں پر ہوئیں"۔
صلیبی جنگیں مذہب کی پیش کی گئی کہانی پر ہوئیں، اسی طرح بڑے تہوار بھی کہانیوں پر منائے جاتے ہیں، یہ سب کہانیاں ہیں جو تہذیب کو مہذب بناتی ہیں، رسوم انھیں کی کوکھ سے نکلتی ہیں، تہوار ان ہی کہانیوں کی گود میں پروان چڑھتے ہیں۔
اور کہانیاں فلسفیانہ نہیں ہوا کرتیں، اسی لئے تہوار کی کھوپڑی میں بھی منطق نہیں ہوتی یہ عقل نہیں جذبات کے تحت منائے جاتے ہیں۔