Islam Ki Hard Disk
اسلام کی ہارڈ ڈسک
ایک دن مرشد بڑے موڈ میں تھے۔ بڑی بڑی شخصیات کو رگڑے پہ رگڑی جارہے تھے۔ میں نے پوچھا حضرت، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے کیا خیال ہے۔
مرشد نے کوزے میں نہر بند کرتے ہوئے جوابا ارشاد کیا "برخوردار خیال کیا ہے، وہ بے چارہ تو اسلام کی ہارڈ ڈسک ہے"۔
اسلام کی یہ ہارڈ ڈسک خاصی نستعلیق شخصیت ہیں، ممبئی والی ہندی اردو کے مکسچر کے ساتھ بولتے ہیں، مسلکا خاصے وہابی مزاج کے ہیں، فرنگی لباس زیب تن کرتے ہیں، کوٹ پینٹ میں ملبوس ہو کر اصحاب جبہ کی باتیں کرتے ہیں۔ کوٹ کے دائیں جیب میں بائبل کی انگریزی کیسٹ رکھتے ہیں، اور دائیں جیب میں بھگوت گیتا کے اشلوکوں کی ہارڈ ڈسک۔
سوال کرنے والا اگر ہندو ہے تو فوراً اشلوکوں کی کیسٹ شری رام سے راون تک سنا دیتے ہیں اور اگر سوال کرنے والا عیسائی تو بائبل کے چیپٹر باقاعدہ گنتی کے ساتھ فرفر انگریزی میں سنا کر اگلے کو مسلمان کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا حافظہ کافی اچھا ہے، قرآن آیات نمبر کے ساتھ زبانی یاد ہے، اسی طرح بائیبل اور بھگوت گیتا کے بعض مقامات کا حوالوں کے ساتھ رٹا لگایا ہوا ہے۔ اس ڈیٹا کے ساتھ ہمارے ممدوح چلتی پھرتی ہارڈ ڈسک بن جاتے ہیں جس میں اسلام، عیسائیت اور ہندو مت کے مختلف باب سٹور ہوں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا طویل المدتی سابقہ بھگت ہونے کے ناطے ڈاکٹر صاحب کے داعیانہ پیٹرن سے خاصی واقفیت ہوگئی ہے، ڈاکٹر صاحب بنیادی طور تقابل ادیان کے بندے ہیں، تقابل ادیان کا بندہ اگر غلطی سے مسلمان ہو یہ ممکن نہیں کہ وہ مناظر نہ بنے سو ڈاکٹر صاحب کا مزاج بھی مناظرانہ ہے، ایک دو بڑے مناظروں میں پاپائیت کو دھول چٹا کر اسلام کا بول بالا کر دیا۔ مناظر کبھی بھی سکالر نہیں بن سکتا، مناظرے کرنے والے چاہے مسالک کے بیچ کریں یا ادیان کے بیچ ان کی ایک خاص طرح کی نفسیات بن جاتی ہے، وہ کبھی اس میں سے نکل نہیں پاتے، مناظرے باز سمجھنے سے زیادہ جواب دینے کے لیے مطالعہ کرتا ہے، وہ پہلے ایک چیز کو حق مانتا ہے اور اس کی صداقت کے دلائل بعد میں ڈھونڈتا ہے، ایسا انسان دماغ میں انفارمیشن بھر کر اچھا مناظرہ باز تو ہو سکتا ہے پر سکالر نہیں۔
ڈاکٹر صاحب اچھے مناظر یا debater ہیں سکالر نہیں، فر فر انگریزی بولنے، ٹائی پہننے والا ایک ڈاکٹر جب اسلام کی تبلیغ کرنے لگے تو مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بننا ہی تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ٹیلی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا بہت ہی بہترین استعمال کیا ان کے جلسوں کا ڈیکورم بھی خاصا منفرد تھا، سوال و جوابات کی نشست میں کلمہ پڑھوانے کی ٹکنیک بھی خاصی شاندار تھی، اس چیز نے بھی ان مقبولیت میں بے پناہ اصافہ کیا، تمام ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام قبول کرنے والے کے confession کا اسکرپٹ تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا، اسے دیکھ کر مجھے حق خطیبِ کے "شفاء" پانے والے مریض یاد آجاتے ہیں۔
کوئی ایک خطاب سن کر اپنا دھرم نہیں چھوڑا کرتا، مذھب تبدیل کرنے کے پیچھے کئی نفسیاتی اور فکری مراحل ہوتے ہیں جس کی کریم آخر میں پیس ٹی وی کو کھانے کو ملتی۔
ڈاکٹر صاحب سائنس سے خاصے متاثر تھے، وہ سائنس کو بھی نہ چھوڑ پائے اور نہ ہی قرآن کی مافوق الفطرتی تعبیرات کو، اس کا اِزالہ انھوں نے سائنس اور قرآن جیسی تقریریں کرکے کیا اور قرآن سے سائنس کی وہ وہ تھیوریز اور فارمولے نکالے کہ گمان ہونے لگا کہ قرآن کا مقصد دلوں اور اخلاق کی اصلاح نہیں بلکہ فزکس اور بائیولوجی کے میدان میں انقلاب برپا کرنا تھا۔ قرآن کو سائنس سے ثابت کرنے کی اپروچ ہے ہی بنیادی طور غلط، قرآن مذھب کی کتاب ہے، اس کا موضوع اخلاقیات و عمرانیات ہیں، اس کا سائنسی حوالوں سے اثبات کرنا ایسا ہی جیسے نباتات کے دلائل کوانٹم میکینکس کی کتاب سے دئیے جائیں۔
پر ڈاکٹر صاحب ناسا کی تحقیقات پر سورہ ملک کی آیات کا دم کردیتے ہیں، بائیولوجی کو بھی قرآن سے مشرف با اسلام کر دیتے ہیں۔ ایک دفعہ تو حد کردی ایک لیکچر میں پروٹون اور نیوٹرون قرآن کی آیت سے نکال لائے۔ یہ طریقہ واردات ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے اپنی کتاب دو قرآن میں استعمال کیا تھا۔ قرآن کریم سے سائینسی انکشافات کر کرکے اسے مذھب سے زیادہ سائنس کی کتاب بنا دیا۔
مذہبی کتابوں کا متن بہت ہی مظلوم ہوتا ہے، اس سے من چاہی تشریحات نکال لی جاتی ہیں۔ اھل مذہب کو ایک محکم نظریے کی تائید چاہیے ہوتی ہے۔ آج سائنس کا دور ہے قرآن سے سائنس نکالی جارہی ہے کل کوئی اور نظریہ عروج پر ہو تو اسے بھی قرآن سے نکال لیا جائے گا۔ یہی طریقہ قرآن اور سائنس کے داعی استعمال کرتے ہیں۔ میری تو تب بس ہوگئی تھی نائیک بھگتی سے جب ایک دفعہ نماز کی "سائنسی" تشریح کرتے ہوئے اس سے یوگا اور آرتھوپیڈک کے وہ سربستہ راز کھود نکلے جس سے آرتھوپیڈک سرجن بھی واقف نہ ہوں۔
سیدھی سے بات ہے چودہ سو سالوں سے مسلمان قرآن پڑھتے تھے مگر نیوٹن اور آئین سٹائین ان میں پیدا نہ ہوئے، پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ کافروں نے ایجاد کیا وہ سب کچھ پہلے سے قرآن میں لکھا تھا۔
ہمارے والے قرآن پڑھ کر اشرف علی تھانوی بن گئے اور وہ اسے پڑھے بغیر نیوٹن اور آئن سٹائن۔
ڈاکٹر صاحب بغل میں ایک اور عصا بھی ہے۔ اکثر فرماتے ہیں اسلام امن کا مذھب ہے، یہی ان کی دعوتِ کا مغز ہوتا ہے۔ کیا یہ کبھی اسلام کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ امن کا مذھب ہے۔ ہر گز نہیں۔ یہ سوفٹ اور ہومیو پیتھک تعبیر اسلام brother ask a very good question تک تو بہت ہی اچھی لگتی ہے، کبھی میں نے ڈاکٹر صاحب کو سورہ توبہ، سورۃ انفال اور احزاب سے دعوت دین دیتے نہیں دیکھا۔ یہ سورتیں جنگ کا پورا مینوفیسٹو ہیں۔ اسلام کا ڈھانچہ ہی ایسا ہے کہ یہ قوت و طاقت کا مطالبہ کرتا ہے اپنے نفاذ کے لیے۔
مودودی صاحب نے اسی لئے اپنی کتاب الجہاد فی اسلام میں لکھا تھا "دعوت دین میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے جب لوگوں کے دلوں سے خطاب کرنے سے پہلے ان کی جسموں سے خطاب کرنا ضروری ہوتا ہے"۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو اڑانے والوں نے بائبل کے چیٹر تو نہیں پڑھ کر جسموں سے خطاب کیا تھا، بم لگی جیکٹس سے خود کو اڑانے والے بھگوت گیتا کے اشلوکوں سے متاثر ہو کر تو فدائی نہیں بنتے، بغدادی نے عراق میں زبور پڑھ کر تو لوگوں کے گلے نہیں کاٹے تھے۔
اس سب کے باوجود ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک عالمی سیلبریٹیز ہیں، ان کے چاہنے والے کروڑوں میں ہیں، فین فالونگ فلسفیوں اور سکالرز کی نہیں بلکہ مقررین کی زیادہ ہوا کرتی ہے۔
اسلام کی یہ ہارڈ ڈسک اتنا کام تو کر گئی کہ اب اسلام کی ذیلی شاخ میں سائنس کا بھی اضافہ ہوگیا۔