Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Iqbal Aur Qadianiat

Iqbal Aur Qadianiat

اقبال اور قادیانیت

مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے دور کی مسلم انٹلکچول کلاس کو بہت متاثر کیا تھا۔ مرزا صاحب کا مزاج مناظرانہ تھا، ہندوستان کے تبلیغی میدان میں پاؤں پھیلاتے عیسائی مشنریوں کو مناظرے کرکے دھول چٹا دی تھی مرزا صاحب نے۔ یہی وجہ ہے اہلحدیث کے مولانا حسین بٹالوی، مولانا غلام رسول مہر، مولانا محمد علی جوہر اور مولوی میر حسن جیسے لوگ مرزا صاحب کی تعریفیں کرتے تھے۔

اس وقت کے مسلمانوں کے تین بڑے ناموں کے بھائی قادیانی ہوگئے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے بھائی مولانا ابونصر غلام یاسین، مولانا محمد علی جوہر کے بھائی ذولفقار علی گوہر اور علامہ اقبال کے بھائی شیخ عطاء محمد۔ ان تینوں نے مرزا صاحب سے متاثر ہوکر احمدیت اختیار کر لی تھی۔

اقبال کے خاندان کے مرزا صاحب سے قریبی مراسم تھے۔ اقبال کے بھتیجے اور شیخ عطا محمد کے بیٹے شیخ اعجاز اپنی کتاب "مظلوم اقبال" صفحہ 158میں لکھتے ہیں کہ "سلسلہ احمدیہ کے ہمارے خاندان کے ساتھ گہرے تعلقات تھے، ابا جی (شیخ عطاء محمد) تو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والے اولین افراد میں سے تھے، سلسلہ احمدیہ کے جانشین اول حکیم نور الدین ایک دفعہ اپنی بیگم کے ساتھ ہمارے گھر بھی تشریف لائے تھے اور بے جی کے گردہ کا علاج بھی کیا تھا"۔

ابتدا میں اقبال بھی مرزا صاحب سے متاثر ہو گئے تھے، یہاں تک کہ قادیان جاکر مرزا صاحب کی بیعت بھی کر لی تھی، اس کی تصدیق کئی حوالوں سے کی جاسکتی ہے۔

مورخ قادیانیت مولوی عبدالقادر نے اپنی کتاب "لاہور تاریخ احمدیت" میں لکھا تھا "1897 میں لاہور کے کئی تعلیم یافتہ نوجوان مرزا صاحب سے ملنے آئے، تاکہ ان سے سوالات کرسکیں جن میں اقبال بھی شامل تھے۔ بعد ازاں ان سے متاثر ہو کر اقبال سمیت کئی لڑکوں نے مرزا صاحب کی بیعتِ کر لی تھی"۔

اس کی مزید تصدیق خواجہ نذیر احمد چیئرمین سول اینڈ ملٹری بورڈ آف ڈائریکٹر کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جو کو انھوں نے تحقیقاتی عدالت کو دیا تھا جو بعدازاں پاکستان ٹائمز میں بھی چھپا۔ جس کے مطابق وہ اپنے والد خواجہ کمال الدین کے ساتھ ایک دفعہ اقبال سے ملنے ان کے گھر گئے۔ اقبال کی ان کے والد سے بے تکلفی تھی۔ خواجہ نے پوچھا۔

یار کیی ہویا تیری بیعت دا

اقبال نے جوابا کہا

او ویلا ہور سی اے ویلا ہور اے

یعنی وہ وقت اور تھا یہ وقت اور ہے۔ وقت وقت کی بات ہے۔ بعد میں تو خیر اقبال نے مرزائیت کی خبر بھی خوب لی۔ جب 1902 میں اقبال کو سید حامد نے اقبال کو احمدیت قبول کرنے کی دعوت دی تو اقبال نے اس کا جواب اس نظم سے دیا

تنکے چن چن کے باغ الفت کے
آشیانہ بنا رہا ہوں میں

ایک دانے پہ ہے نظر تیری
خرمن دیکھتا ہوں میں

تو جدائی پہ جان دیتا ہے
وصل کی راہ دیکھتا ہوں میں

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے سیالکوٹ کی کچہری میں کچھ عرصہ کام کیا تھا۔ سیالکوٹ میں عیسائی مشنریوں کی پکڑ مضبوط تھی امپیریل گزییٹر آف انڈیا کے مطابق Sialkot have largest number of native christian تھا۔ یہاں چرچ آف سکاٹ لینڈ کے تحت کلیساء اور سکول چلا کرتے جہاں اقبال نے بھی پڑھا۔ مرزا صاحب کے قیام سیالکوٹ کے سمے ان کا ٹاکرا عیسائی مشنریوں سے بھی ہوتا تھا۔ اقبال کے والد شیخ نور مذہبی آدمی تھے۔ وہ بھی مرزا صاحب سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ باخبر لوگوں نے لکھا ہے اقبال کے والد بھی مرزائی ہوگئے تھے مگر بعد میں سوشل بائیکاٹ کے ڈر سے احمدیت چھوڑ دی تھی۔

جو کچھ بھی ہو مرزا تھے بڑے ذہین، چوٹی کے علما اور مفکرین نے مرزا کی تعریفوں کے پل باندھے تھے دعوے سے پہلے اور بعد میں اس کے خلاف اگر کچھ اقدام کیئے تو سی علمی نوعیت کے تھے۔

یہ تو پاکستان بننے کے بعد کچھ لوگ تھے جو ظفر اللہ کو راستے سے ہٹانے کے لیے قادیانی قادیانی کا کھیل شروع کیا جس کے مہرے مولانا مودودی اور عطا آللہ شاہ بخآری بنے۔

وہ کونسے دو خفیہ ایجنسی کے افسر تھے جنھوں نے ملتان آکر عطا آللہ شاہ بخآری کو ٹاسک دیا تھا کہ آپ ختم نبوت کی تحریک چلائیں اور وہ دو افسر کس کے کہنے پر آئے تھے۔ اگر صرف اس کا پتہ چل جائے تو پاکستان کی تحفظ ختم نبوت کی انڈسٹری پر پڑے کئی مقدس پردے سرک جائیں گے۔

Check Also

Bhutto Ka Tara Maseeh

By Haider Javed Syed