Firqa Bandi Zaroori Hai
فرقہ بندی ضروری ہے
فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحاد امت کے دعوے جتنے خوشنما لگتے ہیں اپنی اصل میں اتنے ہی کھوکھلے ہوتے ہیں، نہ ہی کبھی فرقہ واریت کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کبھی ایک بڑا مذہب اتحاد جیسی یکسانیت اختیار کر سکتا ہے۔
فرقہ واریت اسلام جیسے بڑے مذہب کے لیئے ایک فطرتی بات ہے، مجھے سمجھ نہیں آسکی کہ نئے نئے علمی کتابی ہوئے مسلم فرقہ واریت کو ختم کیوں کرنا چاھتے ہیں، فرقوں کی جڑیں بہت مضبوط ہیں، میں فرقہ واریت کے ہرگز خلاف نہیں ہوں، فرقوں کی تشکیل ضروری ہوتی ہے ایک عالمگیر مذہب کے لیئے، تاریخ کے ڈیرھ ہزار سالہ سفر میں کوئی مذہب بغیر فرقوں اور مختلف مکاتب فکر میں تقسیم ہوئے سروائیو کر ہی نہیں سکتا۔ فرقے نہ ہوتے تو ایک خشک قسم کی عربی یکسانیت ہی باقی رہتی جو اسلام کو عالمگیر مذہب بننے کی بجائے عرب تک ہی محدود کر دیتی۔
فرقے بننے کا عمل عین فطرتی ہے، چہ جائیکہ دو تین بنیادی فرقے ابتداء میں ہی بن چکے تھے، شعیہ، خوارج کی شکل میں، مگر یہ تقسیم اپنی بنیاد میں مذہبی سے زیادہ خالص سیاسی تھی، اسلام جوں جوں عرب سے نکل کر عجم کے مختلف علاقوں میں پھیلتا گیا، وہاں اس کا سامنا مختلف تہذیبوں اور مذاھب سے ہوا، اب ان لوگوں کے لیے ایسا ممکن نہ تھا کہ ایک نئے اور غیر ملکی مذھب کو ہو بہو قبول کر لیں، انھیں اس مذھب کو تہذیبی طور پر ہضم کرنے لیے کافی وقت درکار تھا، ہر خطے کی تہذیب نے اسلام کو اپنے اپنے رنگ میں قبول کیا، یہی وجہ ہے ایران کے اسلام، برصغیر کے اسلام میں، ترکی کے اسلام میں جدا جدا رنگ دیکھنے کو ملے گا، یہی رنگ مختلف مکاتب فکر کو جنم دینے کا باعث بنا۔
پانچ بنیادی فقہ بھی الگ الگ خطے کا رنگ نظر آئے گا، یہاں ایک لطیف نکتہ بیان کرنا ضروری ہے، پانچوں فقہیں عباسی دور میں ہی پروان چڑھیں، حالانکہ اموی دور میں اسلام نے عجم کو زیر نگیں کر لیا تھا پھر اموی دور میں کسی فقہ کی نشوونما کیوں نہ ہو سکی، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اموی امپیریل ازم میں عربیت کا رنگ زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے، انھوں نے اسلام کو عجمیوں سے isolate کرکے رکھا تھا، اس کی وجہ یہ تھی اگر غیر مسلم زیادہ مسلمان ہو جاتے تو ان کے جزیہ یا ٹیکس کی رقم کم ہو جاتی، اس لیے امویوں کے دور میں عربی اسلام اور عجمی تہذیب کے مابین تعلق اس طرح پروان چڑھ ہی نہ سکا کہ علمی بنیادوں پر مختلف مکاتب فکر معرض وجود میں آسکتے، یہ سب عباسیوں کے دور میں ہوا، فقہ کے پانچوں مکاتب فکر کی نشوونما عباسیوں کے دور میں ہوئی۔
حنفی فقہ برصغیر اور ایران کے مزاج کے لیے زیادہ موافق ثابت ہوئی کیونکہ فقہ حنفی کی نشو نما کوفہ میں ہوئی تھیں، کوفہ ایک متنوع شہر تھا، اور ایرانیت کا زیادہ اثر و رسوخ تھا، عجمی reasoning یا استدلال پر زور دیتے اور ایرانی مزاج تھا بھی کلامی قسم کا، اس لیئے فقہ حنفی استدلال کا رنگ زیادہ نظر آتا ہے قدیم ماخذات دین پر انحصار کے بجائے، اس کے مقابلے میں مالکی فقہ کی نشوونما مدینہ میں ہوئی تھی، وہاں حدیث و قرآن کا غلبہ زیادہ تھا، اس لیے مالکی فقہ میں ماخذات دین کا غلبہ زیادہ نظر آتا ہے، فقہ کی نشو نما میں مذہب سے ذیادہ کلچر نے حصہ ڈالا بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ فقہ نے عربی مذہب کو عجمی تہذیب کے مابین پل کا کردار ادا کیا۔
یہی فقہانہ تقسیم بعدازاں مختلف فرقوں کی شکل اختیار کرتی گئی اور ہر فرقہ اپنی جگہ ایک آرتھوڈکسی بنتا گیا۔ آرتھوڈکسی ایلفی کا کام کرتی ہے سماج کو جوڑے رکھنے کے لیئے، آرتھوڈکسی انسان کی بڑی ایجادوں میں سے ایک ہے، یک دیکھنے میں جتنی فضول لگتی ہے اتنی ہی زیادہ گہری ہوتی ہے۔ میں نے شھاب احمد کی کتاب before orthodoxy میں ایک جملہ پڑھا تھا۔۔
The historical process of formulatin of orthodoxies are the process of formulatin of communities.
میں کئی دن اس جملے کے سرور میں رہا تھا۔ اس وقت سمجھ آئی تھی، آرتھوڈکسی، تقلید پسندی یا توہم پرستی یا مافوق الفطرت پرستی یہ پرستش کی مختلف اقسام اسمان سے نہیں اترا کرتیں یہ سب سماج اپنے ارتقاء کے ساتھ ساتھ پروان چڑھاتا ہے۔ یہ سماج سے ہی پھوٹتی ہیں نازل ہونے کے بجائے۔
یہ شیعہ سنی، سنیوں میں وہابیوں اور بریلوی کی تفریق یہ بریلوی وہابی، یہ رجب کے کونڈے یہ شب برات، یہ عید میلاد النبی، یہ محرم کی محفلیں، اہل تشیع میں الاخباری، حروفی، نقطوی شیعہ کی تفریق، یہ سب مذہب کے کلچر کے ساتھ فرینڈلی فائر سے پیدا ہونے والی رسوم ہیں۔
ہم فرقوں سے کسی صورت نہیں نکل سکتے، آپ مذھب سے نکل سکتے ہیں مگر فرقے سے نہیں، کیونکہ فرقہ مذھب کا بنیادی unit ہے۔ فرقوں کا اپنا ایک پورا نظام ہوتا ہے، ان کی اپنی ایک مسجد ہوتی ہے اپنا مدرسہ اور انھیں چلانے کے لیے ایک پورا چیرٹی سسٹم، پاکستان جیسے معاشرے میں مدراس کا سب سے مثںت رول یہ ہے کہ یہ غریب بچوں کو مفت تعلیم اور رہائش فراہم کرنے میں کسی ریاستی ادارے سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔
ایک ملحد بھی سلفی ملحد ہی رہے گا یا بریلوی ملحد کیونکہ فرقہ اس کے گھر میں ہے، اس کے دوستوں میں، اس کے اردگرد ہر جگہ ہوگا۔
میرے نزدیک فرقہ واریت کے خلاف جنگ سعی لاحاصل ہے، یہ سوائے جذباتیت کے اور کچھ نہیں کہ آپ فرقہ واریت سے بالاتر ہونے کے خواب دیکھیں ایسا ہونا ممکن نہیں، میں اکثر کہتا ہوں، آپ جس فرقے میں ہیں اسے چھوڑنے کی ضرورت نہیں، فرقوں کے نام پر جو فساد اور قتل و غارتگری ہوتی ہے، یہ بھی فطرتی ہے، سماج کے اندر تصادم ہوتا ہے، اگر یہاں مذہبی فرقے نہ ہوتے، شیعہ سنی کی جنگ نہ ہوتی، مقلد غیر مقلد کے مابین اکھاڑے نہ ہوتے، حیاتی مماتی کے بیچ دنگل نہ ہوتا تب بھی یہ تصادم ہمارے سماج میں ہوتا مگر اس کی شکل تبدیل ہوتی اگر لوگ فرقہ واریت پر لڑ رہے ہیں ہوسکتا ہے لوگ کے پاس تصادم کے لیے اور وجوہات ہوتیں۔ جدلیات کا عمل کسی مذہب کا محتاج نہیں ہوتا۔
اس لیے فرقہ بندی ضروری ہے، ہم بس فرقہ وارانہ اختلافات کو علمی حد تک محدود رکھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔