Fauji Se Tajir Tak
فوجی سے تاجر تک
ینی چری سلطنت عثمانیہ کی نمبر ون فوج تھی۔ سلطنت کو سپر پاور بنانے میں اس فوجی کور کا بہت بڑا ہاتھ۔ ینی چری خاصی دلچسپ فوج تھی۔ عثمانی سلاطین کی فوجی طاقت کا انحصار قبائلی فوجیوں پر ہوتا تھا۔ قبائلی کی فطرت میں سلطنت سے زیادہ اپنے قبیلے سے وفاداری ہوتی ہے، عثمانی سلاطین کو ڈسپلنڈ فوج درکار تھی جو قبائلی وفاداری سے ماروا ہو کر ان کے ساتھ چلے۔
سلطان مراد اول بہت گھاگ سلطان تھا، اس نے دویشرم کا نظام متعارف کروایا، جس کے تحت عیسائی خاندانوں کے ذہین اور تیز لڑکوں کو سلطنت اپنی تحویل میں لیتی، ان کی عسکری اور تعلیمی تربیت کی جاتی، اور ان تربیت شدہ لڑکوں کے فوجی دستے کو ینی چری کہا جاتے، جو سلطان کے وفادار ہوتے، سلطان جس جنگ میں ینی چری کو اتارتا، یہ دشمن کا صفوں میں گھس کر جنگ کا پانسہ پلٹ دیتے۔
سلطان کے حرم اور محل کی حفاظت بھی انھی کے زمہ تھی، ینی چری پر بڑی دلچسپ پابندیاں عائد تھیں، یہ کبھی شادی نہیں کر سکتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ شادی کرنے سے ان کی اپنی فیملی شروع ہو جائے گی جس کے باعث سلطان سے وفاداری پر خاندان سے وفاداری بھاری ہو جائے گی۔ اگر اتنی پابندیاں تھیں تو مراعات بھی خوب ملتیں، یہ سلطان کے براہ راست ملازم تھے، ان کو بڑی تگڑی تنخواہیں دی جاتیں۔
یہاں تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، فتوحات پر فتوحات ہو رہیں تھیں، سلطنت عثمانیہ مغرب سے مشرق تک پھیل گی تھی، پھر سولہویں صدی آگئی۔۔
نمبر ون فوج جو سلطان کی غلام تھی، اس نے سلطان کو آنکھیں دکھانا شروع کردیں، ان کا خیال تھا کہ ہم لڑتے ہیں، بارڈر پر جاگتے ہیں تبھی تم لوگ عیاشی کرتے ہو، پہلی بغاوت انھوں نے تنخواہوں میں اضافے یا دفاعی بجٹ بڑھانے کے لیے کی۔ تخت نے اپنی فوج کو خود سے بھی زیادہ طاقتور بنا دیا تھا، اس لیے احتجاج پر سلطان کے ہاتھ پاؤں پھول گے۔
اس کے بعد سلطان ان کے مطالبات مانتا گیا، سلطان سلیم ثانی نے انھیں شادی کرنے کی اجازت دے دی۔ شادی کے بعد مجرد فوجیوں کی اپنی فیملی شروع ہوگی، جس کی وجہ سے ینی چری کی ترجیحات بدل گئی، ہر ینی چری مراعات اور پرکشش تنخواہ کی وجہ سے اپنے پتر کو بھی ینی چری میں بھرتی کروانے کی دوڑ میں لگ گیا، دویشرم کے ذریعے نوعمر عیسائی لڑکوں کی بھرتی کا نظامِ میرٹ پر تھا، مگر اب فوجی کے پتر فوجی بننے سے اقربا پروری بڑھنے لگی، جس کی وجہ سے ینی چری کی عسکری استعداد پر فرق پڑنا شروع ہوگیا۔
ینی چری جرنیل ریٹائر نہ ہوتے، اگر فوج سے ریٹائر ہوتے تو کوئی دربار میں اعلی سیاسی عہدوں کو ہتھیا لیتے یا صوبوں کی گورنر شپ قابو کر لیتے۔
فوج جب بیرکوں سے نکل جائے تو پھر وہ فوج نہیں رہتی، اس کی پیشہ وارانہ صلاحیتیں زنگ آلود ہو جاتیں ہیں، ینی چری کو بھی بیرک سے باہر کی زندگی کی چاٹ لگ گی تھی، جو فوجی اعلی سویلین عہدے ہتھیا سکتے انھوں نے وہ ہتھیا لیے، کوئی تجارت میں گھس گیا، ینی چری فوج کے اعلی افسران بیک وقت فوجی کے ساتھ ساتھ تاجر بھی بننے لگے، اس حوالے سے "عسکری قسام" رجسٹروں کا مطالعہ خاصا دلچسپ ہے، یہ رجسٹر اس وقت کے ینی چری فوجیوں کے ریکارڈ کے لئے مرتب کیے جاتے تھے، ان پر ترکی کے محقق گولے یلمز نے بھی خاصا کام کیا ہے، اور بعدازاں The economic and political role of janasari کے عنوان سے کتاب بھی لکھی ہے، وہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اس کے مطابق استنبول کے بازار میں ینی چری سپاہیوں اور افسروں نے دوکانداری شروع کر دی تھی، صرف قصابوں کی تین سو دوکانوں میں سے ایک سو حاضر سروس فوجیوں کی تھیں۔
فروٹ کے کاروبار پر بھی جرنیلوں نے مناپلی قائم کر دی تھی، اس کے ساتھ بعض ینی چری فوجیوں نے سود پر ادھار دینے کا کاروبار شروع کر دیا، کچھ فوجی افسر پراپرٹی کے کام مین گھس گئے، کچھ جرنیلوں نے مصالحہ جات کی امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار بھی شروع کر دیا تھا، فوج کے تجارت میں آنے سے جینوئن تاجر خاصا ہڑبڑا گئے اور انھوں نے قاضی کو شکائتیں کرنا شروع کردیں۔
عدالتیں اور سلطان دونوں ان کے آگے بے بس تھے، وہ اس حد تک طاقتور ہو گے تھے ینی ان کی مرضی کے بغیر کوئی کوئی سلطان تخت نشین نہیں ہو سکتا تھا، جو سلطان ان کے احکامات لینے سے انکار کرتا اسے محلاتی سازشوں کے ذریعے کھڈے لائن لگا دیا جاتا۔
سلطان عثمان ثانی نے سویلین بالادستی کے لیے پر پرزے نکالنے شروع کیے تو اسے مار دیا گیا۔
محلاتی سازشیں مکاری کی پیداوار ہوتی ہیں اور مکاری دلیری کی دشمن ہوتی ہے، یہی دلیری آہستہ آہستہ فوج کے سیاسی کردار کی وجہ سے ختم ہوگی تھی، جس کے باعث فتوحات کا سلسلہ رک گیا جو سلطنت کی آمدنی کا بڑا زریعہ تھیں، ویانا کی شرمناک شکست کے بعد سلیم ثالث نے فوج میں کچھ ریفارمز کرنے کی کوشش کی، جس سے فوج کے معاشی مفادات پر ضرب پڑتی تھی، فوج نے سلطان سلیم کو تخت سے ہٹا کر مارشل لاء لگا دیا۔
سلطان عثمانی فوج کو یورپی طرز پر منظم کرنا چاھتا تھا اگر ایسا ہو جاتا تو فوج کے اعلی افسران کے کاروبار ٹھپ ہو جاتے، اس لئے سلطان کو چلتا کر دیا گیا۔
اگلا عثمانی خلیفہ سلطان محمود تھا، اسے بھی حقیقی آزادی کا جوش چڑھا، اس نے ینی چری کا مکو ٹھپنے کا فیصلہ کر لیا، اور مقامی فوج کو ساتھ ملا کر ساری فوج کو پار لگا دیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
کیونکہ ترکی یورپ کا مرد بیمار بن چکا تھا۔۔
فوج کے تجارتی اور سیاسی کردار نے اسے یورپ کا مرد بیمار بنا دیا جس کو آخری ہچکی سقوط استنبول پر آئی۔۔
ہمارے والے ینی چری بھی خاصے تگڑے ہیں۔۔ خیر۔۔
نوٹ: یہ خالص تاریخی تحریر ہے، کسی بھی ادارے یا شخصیت سے مماثلت "اتفاقی" ہوگی۔۔
اگے تسی آپ سمجھدار ہو۔۔