Ehtiatism
احتیاط ازم
"زبیر تمھیں ڈر نہیں لگتا کیا"، اس نے فکرمند ہو کر پوچھا۔
"کیوں نہیں لگتا ڈر، جب کسی ترکھان کے پتر سے سامنا ہو جائے تو پھٹ کر ہاتھ میں آجاتی ہے۔ بس لکھنے کی کھرک ڈر پر حاوی ہو جاتی ہے اس لیئے لکھ دیتا ہوں"۔
مجھے آج بھی یاد ہے میں نے ایک مذہبی جماعت پر لکھ دیا تھا، میری پوسٹ ان کے اکابر تک پہنچی، ان کے لوگ میرا سراغ لگا کر مجھ تک پہنچے، مگر وہ کوئی کانٹھ کیئے بغیر پیچھے ہٹ گئے کیونکہ اتنے مولوی ان کی پوری تنظیم میں نہیں تھے جتنے میرے خاندان میں ہیں اس لئے مذہبی کارڈ کھیل نہ پائے۔ مگر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے اگر میں ملاں زادہ نہ ہوتا تو آج ترکھان کے پتروں نے مجھ پر رندا چلا کر میرے سیخ کباب بنے دینے تھے۔
یہ نہیں کہ میں کوئی بہت حریت پسند اور بہادر ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے، مگر میں مصلحت پسندی کی گھٹن میں جی نہیں سکتا۔ مجھے آج تک درجنوں لوگ کہہ چکے ہیں احتیاط کیا کرو، نہ لکھا کرو ایسے موضوعات پر۔
میرا جواب ہوتا ہے آخر کسی کو تو لکھنا ہوگا، کسی کو تو بولنا ہوگا، کب تک ہم دبکے بیٹھے رہیں گئے احتیاط کے نام پر، اگر میں نہیں لکھتا تو کوئی اور لکھے گا، میں اپنے مطالعے کی بنیاد پر یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہوں، کوئی بھی طلسم ہمیشہ مقدس نہیں رہتا، کوئی بھی آرتھوڈکسی ہمیشہ مقدس نہیں رہتی، ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کو چیلینج کرنے والا کوئی نہ کوئی اٹھ کھڑا ہوتا ہے، یہ پہلا اٹھنے والا کمزور ہوتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بارش کا وہ پہلا قطرہ سماج کے ان بیچوں کی آبیاری کرتا ہے جو اس کی سوچ کی طاقت بنتے ہیں مستقبل میں۔ جدلیات کا یہ عمل ہمیشہ جاری رہے گا۔
پہلا قدم کسی کو اُٹھانا ہوتا ہے، میں نے کتابی لوگوں میں سے زیادہ تر کو احتیاط کے ہیضے کا شکار دیکھا ہے، ان کی روشن خیالی، ان کے باغی خیالات، ان کے فلسفے ان کی لائبریری کی چوکھٹ تک ہی محدود رہتے ہیں اور کسی بھٹکی آتما کی طرح اسی جگہ گھٹ گھٹ کر مکتی کی راہ دیکھتے ہیں۔ ان کے فلسفے کتابوں سے سر پھوڑ کر پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ یہ حقیقت پسندی ہر گز نہیں ہے کہ آپ احتیاط کے نام گھٹ گھٹ کر مر جائیں بغیر اپنے نظریات کا اظہار کیئے۔ اس جینے سے مرنا بہتر ہے۔
کسی کے عقائد کی تضحیک نہ کریں، کسی نظریے کی توہین نہ کریں، علمی انداز سے اختلاف رائے کریں۔ مر تو اس ملک میں لوگ مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے خودکش دھماکے میں بھی جاتے ہیں، ڈاکٹر کی لاپرواہی سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ٹھکیدار کی دونمبری کہ وجہ سے پل گرنے سے بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔
یہ نہیں کہ احتیاط نہ کریں، اپنی جان بچانا ضروری ہے ترکھانوں کے پتروں سے، یہ ترکھان اور غازی کون ہوتے ہیں، یہ کوئی مریخ سے نہیں اترتے، ہم میں سے ہی ہوتے ہیں، بس انھیں لگتا ہے جو میرے حضرت، میرے فرقے یا میرے بابے کی بات نہیں مانتا اسے زندہ رہنے کا کوئی حق۔ نہیں۔
اس پر بولنا تو ہوگا، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ہومیو پیتھک انسان بن کر بیٹھ جائیں میٹھی میٹھی باتیں کریں، اور کوئی رسک نہ لیں اور پھر سوچیں راوی چین ہی چین لکھے گا۔ اس نام نہاد احتیاط ازم سے نکل کر ہی کچھ شعور و آگہی پھیلائی جا سکتی ہے۔