Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Dr. Israr Ahmed

Dr. Israr Ahmed

ڈاکٹر اسرار احمد

ڈاکٹر صاحب بزرگانہ چہرے، لمبی سفید داڑھی کی وجہ سے مجھے سانتا کلاز لگتے تھے، سانتا کلاز کرسمس پر بچوں میں ٹافیاں تقسیم کرتا ہے جبکہ اسرار صاحب ساری عمر خلافتِ کی ریوڑیاں بانٹنے رہے۔

مودودی صاحب کی درسگاہ میں فکری پرورش پانے والے اسرار صاحب سیاسی اسلام کے سارے پہاڑے پکے رٹے کے ساتھ یاد کرکے نکلے تھے مگر جب وہ نکلے تو سیاسی اسلام کی ایک عدد خود ساختہ تعبیر بھی بغل میں دابی تھی، ان کے ساتھ ہی مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی مودودی صاحب کو چھوڑا تھا، ماچھی گوٹھ کے اجتماع نے جماعت کے ڈھانچے کو تلپٹ کرکے رکھ دیا، کوثر نیازی، ڈاکٹر اسرار اور مولانا امین احسن اصلاحی جیسے لوگ جماعت چھوڑ گے، اصلاحی صاحب نے ماچھی گوٹھ اجتماع کے حوالے سے مودودی صاحب پر سازش کا الزام بھی لگایا تھا، انہی اصلاحی صاحب نے جماعت چھوڑنے کے بعد ڈاکٹر اسرار سے پوچھا تھا۔

"یہ تم بھانت بھانت کے مولوی اپنی کانفرس میں اکھٹے بٹھا کر کیا کرنے چاہتے ہو"۔

ڈاکٹر اسرار نے جواباً کہا "میں تمام مسالک کے علما کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا چاہتا ہوں"۔

اصلاحی صاحب کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور فرمایا "یہ فریضہ تو پچھلے سو سال سے محکمہ ریلوے بڑی کامیابی سے سر انجام دے رہا ہے"۔

ڈاکٹر صاحب شاید ریلوے کی کارکردگی سے زیادہ مطمئن نہ تھے، اس لیے مسلمانوں کو "پلیٹ فارم" کی طرف ہانکتے رہے، نیشنلزم کے سخت خلاف تھے، فلسفہ امہ کے داعی تھے، وطنیت کو شرک کہتے، وطن پرستی کو تازہ خداؤں میں سب سے بڑا قرار دیتے، اس کے پیرہن کو مذھب کے کفن سے تشبیہ دیتے، قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہونے کے خلاف تھے اور اس کھڑے ہونے کو وطن کو سجدہ کرنے کے مترادف جانتے، مگر ڈاکٹر صاحب کبھی یہ نہیں بتا پائے کہ جب مذھب اور نیشنلزم کا ٹاکرا ہوا تو مذھب کو ہر بار کیوں شکست ہوتی رہی۔

کیوں نسلی لسانی اور قومی عصبیت فلسفہ امہ کو مات دیتی رہیں، عربوں نے کیوں خلافت عثمانیہ سے بغاوت کرکے امہ کی پڑیا گول کرکے سلطان کے ہاتھ میں پھڑا دی تھی، مذھب تو دونوں کا ایک تھا، بنو امیہ اور عباس کا مذھب بھی ایک تھا، پھر وہ کیا چیز تھی جو یہاں بھی پین اسلام ازم سے ہاتھ کر گی، یہ بات نہ اقبال نہ مودودی نہ اسرار صاحب سمجھ پائے کہ لوگ مسلمان سے پہلے جٹ، آرائیں، راجپوت، ہاشمی، عثمانی، قریشی ہوتے ہیں، اس کے بعد وہ مذھبی ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب ایلو مناتی اور فری میسن کے بھی خاصے سپیشلسٹ تھے، اکثر صیہونیت کی سرجری کرکے اس میں فری میسن کی تھیوریاں برآمد کیا کرتے، ان کا خیال تھا، بڑے سلیبرٹی اور کرشماتی شخصیات فری میسن کے ایجنڈے کے تحت وجود میں آتی ہیں، اسی لیئے وہ عمران خان کو بھی اس وقت اسی کھاتے میں فٹ کر دیتے اور اسے یہودی ایجنٹ بھی قرار دیتے۔

ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ غزوہ ہند ہو کر رہے گی، اور پاکستان اس کا اول سپاہی بنے گا، پاکستان معرض وجود ہی اسے واسطے آیا تھا کہ غز وہ ہند کرکے سارے عالم میں اسلام کا بول بالا کر دے، ان کا خیال تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ "مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے"۔

اسرار صاحب کے خیال میں وہ ہوا پاکستان ہی تھی، جہاں سے سیاہ جھنڈے والے لش کر نکل کر خلافتہ علی منہاجہ النبوہ قائم کر دیں گے۔

مارکس نے کیمونزم کا یوٹوپیا تخلیق کیا تھا، ڈاکٹر اسرار صاحب خلافتِ کا یوٹوپیا لوگوں کے دماغوں میں بھر گے۔ مارکس نے تاریخ کا اختتام اشترا کی معاشرہ بتایا تھا ڈاکٹر صاحب تاریخ کا اختتام خلافتہ علی منہاجہ النبوہ پر کرتے تھے، مارکس بھی انقلاب کا داعی تھا اسرار صاحب بھی انقلاب کے پیامبر تھے۔

اپنی کتاب "اسلام کی نشاۃ ثانیہ۔۔ کرنے کا اصل کام" میں اسلامی انقلاب کا مینو فیسٹو لکھتے ہوئے کہتے ہیں "انقلاب نظام میں پیدا کرنے سے پہلے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا کرنا ہوگا، اس انقلاب کا ٹول قرآن ہے"۔

ڈاکٹر صاحب سوسائٹی کو اعلی اور ادنی دماغوں میں تقسیم کرتے، ان کا خیال تھا کہ سوسائٹی کے اعلی دماغوں کو متاثر کرنے سے ہی سوسایٹی میں تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے، حقیقتا ایسا نہیں ہوتا، تبدیلی سماج کے اندر سے پھوٹتی ہے، کسی درآمد شدہ نظریے یا ٹرینڈ سے سماج کے ذہین دماغوں کو متاثر کرنے سے کبھی سماج بدل نہیں سکتا، بلکہ ایسا درآمد شدہ نظریہ دیوار برلن کے ڈھنے سے ہی روس میں اشتراکیت کی شکل میں کھڈے لائن لگ جاتا ہے۔

اسرار صاحب اسلام کو socio economic political system کے طور دیکھتے، وہ بھی مودودی صاحب کی طرح اسلام کو مذھب سے زیادہ سیاست کا درجہ دیتے، اسلام کے معاشی اور سیاسی نظام کی جنتریاں خود ہی گھڑ کر اسے قرآنی تشریح کا نام دیتے۔

جمہوریت اور سیکولر ازم کو سب سے بڑا شرک قرار دیتے، عبادت کی طرح سیاست میں بھی توحید کے قائل تھے، سیکولرزم کو خدا سے انسانی بغاوت کہتے، ان کا خیال تھا کہ نظام کا حصہ بن کر نظام کو بدلا جا سکتا، الیکشن نظام کو چلانے کی رہ ہے نہ کہ نظام کو بدلنے کی، اس لیے جماعت اسلامی کو انتخابی سیاست کی وجہ سے چھوڑا، اپنی کتاب اسلام کی نشاہ ثانیہ میں لکھتے ہیں "خلافت کی تحریکوں کے ناکام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ انھوں نے مذھب سے روحانی پہلو نکال کر اسے صرف سیاسی فلسفہ بنا کر پیش کر دیا، جس کے باعث کارکنوں میں ایمانی تربیت کی کمی رہ جاتی ہے جو آگے چل کر ناکامی کا سبب بنتی ہے"۔

اسرار صاحب بلا کے مقرر تھے، تحریر سے زیادہ تقریر پر ملکہ حاصل تھا، قرآن کا اسلوب تحریری نہیں تقریری ہے، اسی لیے قرآن کی قولی تفسیر بیان القرآن کے نام سے کی۔ ساری زندگی سادگی سے گزاری۔ انتہا کا خلوص بھرا ہوا تھا۔ کوئی اثاثے نہیں بنائے۔

انسان بھی خدا کی طرح اپنے شریک کو پسند نہیں کرتا، اسرار صاحب بھی اپنا کوئی تگڑا جانشین نہ کھڑا کر پائے، اس لیے ان کی تنظیم اسلامی بھی "ون مرحوم" مین "شو بن کے رہ گی"۔

Check Also

Qissa Panjotha Sahab Ke Aghwa Ka

By Nusrat Javed