Dastan Eman Faroshon Ki, Dastan Faroshi
"داستان ایمان فروشوں کی" داستان فروشی
"داستان ایمان فروشوں کی" بڑا رومانوی ناول تھا، یہ پڑھا بھی بڑے رومان انگیز دور میں تھا، جب تازہ تازہ جوانی کی کونپلیں پھوٹیں تھیں۔ کئی غیر پارلیمانی"امور" سے نئی نئی آگاہی ہوئی تھی۔ یہ ناول کتاب سے زیادہ جذبات تھے، عنایت اللہ کے قلم سے نکلے اس شاہکار نے کتابیں پڑھنے والی دو سے تین نسلوں کو متاثر کیا، اور چار دھائیاں گزرنے کے بعد بھی دبا دب چھپ رہا ہے۔
ایمان فروشوں کی داستان کے پہلے باب کا نام تھا "جب ذکوئی خیمے میں گئی، ذکوئی کے ساتھ ہم بھی خیمے میں وڑ گئے، ذکوئی تو خیمے سے سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایمان پرور بھاشن نیم برہنہ لباس میں لے کر نکل گئی تھی اس باب میں مگر ہم خیمے کی دنیا کی بھول بھلیوں میں کھو گئے، جہاں جہاد کی داستانیں، جاسوسوں کی زیر زمین کاروائیاں، حسین و دلکش دوشیزاؤں کے سلطان ایوبی کے پراسرار کارندوں پر ڈورے ڈالنے کی وارداتیں، حشیشین کی کاروائیاں اور ابوسفیان کی لمبر ون والی پرفامنس، کیا کچھ نہیں تھا اس کتاب میں۔
مگر اب فلش بیک میں دیکھتا ہوں تو یہ کتاب بھی ناولوں کی ارتغرل لگتی ہے۔ عنایت اللہ "داستان ایمان فروشوں"کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ انہیں خاصی تکلیف ہوتی جب وہ نوجوانوں کو فحاشی سے بھرپور لٹریچر پڑھتے دیکھتے ہیں، پھر عنایت اللہ نے نوجوانوں کو عریانی سے بچانے کے لیے اور ان کے دل میں جذبہ ایمانی بیدار کرنے واسطے "داستان ایمان فروشوں کی" لکھا۔ خیر عریانی تو خیر بہت ہی نفیس انداز میں عنایت اللہ نے بھی اس میں بھری، اب ذکوئی کی دلکش اداؤں، رعدی کے حسین افیئرز، لوزینا کے حسین سراپے کی منظر کشی، روزی اور فلوریا کی فرنگی قلعوں کی راتوں میں شب باشی کے عریاں تذکروں سے نوجوان اپنے جذبات کو تو سینک سکتے ہیں جہ جائیکہ کی ایمان کی حرارت پیدا کے مشرق و مغرب میں طلوع ہوتے رہیں۔
بات اگر اسلامی رومانس تک رہتی تب بھی ٹھیک تھی، نسیم حجازی بھی تھوڑی بہت قلمی اوباشی کرکے شاہین بچوں کو پرواز کے لیے تیار کیا کرتے تھے۔ ان کے ناولوں میں بھی غرناطہ قلعے کی دیواروں کے خفیہ گوشوں میں مجاہدین گبھرو دوشیزاؤں کے ساتھ ڈیٹ مارا کرتے تھے۔ مگر نسیم حجازی نے کبھی یہ دعویٰ نہ میرے ناول تاریخی حقائق ہیں بلکہ ناول کو ناول کی حد تک رہنے دیا۔
عنایت اللہ التمش نے "داستان ایمان فروشوں کی" کو غیر مطبوعہ تاریخی حقائق قرار دیتے ہوئے حصہ اول صفحہ 8 لکھتے ہیں"التمش نے گزشتہ بارہ برسوں سے متعدد اسلامی ممالک کی لائبریریوں کے سٹوروں سے وہ کاغذات ڈھونڈ نکالے جنھیں بیکار سمجھ کر پھینک دیا گیا تھا، ان میں سے انھوں نے سلطان ایوبی کے دور کے سرکاری اور غیر سرکاری وقائع نگاروں کی لکھی ہوئی غیر مطبوعہ تحریرں مل گئیں، یہی تھی سلطان ایوبی کے دور کی اصل تاریخ، جو اگلی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے"۔
اس اصل تاریخ کا ساتھ جو کاروائی عنایت اللہ نے ڈالی وہ تو کتاب پڑھ کر پتہ لگے گی، پہلی بات تو یہ ہے کہ التمش کے پاس ایسی کونسی گیڈر سنگھی تھی کہ سلطان کے مرنے کے ایک ہزار سال بعد جو "غیر مطبوعہ" تحریرں کسی اور کو عرب ممالک سے نہ مل سکیں وہ صرف پاکستان کے التمش کے ہتھے چڑھ گئیں، بیسوسں صدی میں مستشرقین نے پورا کا پورا مشرق وسطی کنگھال ڈالا اسلامی نوادرات کی کھوج کے واسطے یہ بھلا کیسے ممکن تھا وہ "خُفیہ تاریخ" ان میں سے کسی کے ہاتھ نہ لگی جس پر اکیسویں صدی کا ناول نگار سولہ سو صفحات کی ایک پوری کتاب گھڑ اگلی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بناتا ہے۔
اور نسل بھی اس فرضی داستان کو حرف بہ حرف تاریخی حقیقت سمجھ لیتی ہے۔ کئی بڑے اردو پلیٹ فارم پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور کے تاریخی حقائق کو اس فرضی داستان سے اقتباس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان اقتباسات کو مستند بھی سمجھ لیا جاتا ہے۔
کیا تاریخ اس چیز کا نام ہے وہ جذبات و احساسات کو بھی درج کرے، کیا تاریخ ایسی ہوتی ہے جس میں جاسوس کے معاشقوں کی داستانیں جذبات کے بھڑکیلے مصالحے کے ساتھ بیان کی جائیں۔ یہ مورخ کا قلم تھا یا ہمارے نمبر ون والوں کا خفیہ کمیرا جسے سلطان ایوبی کے بیڈ روم تک رسائی تھی۔
عنایت اللہ کے اس تاریخی حقائق کے مکھوٹے سے پردہ اسی وقت اتر جاتا ہے جب وہ لکھتے ہیں"ان وقائع نگاروں کے علاوہ التمش نے جن مورخوں کی تحریروں سے استفادہ کیا ہے ان میں ہیرڈ لیمپ، لین پول، قاضی بہاوالدین شداد، واقدی، سراج الدین، ابوحدید، اسدالاسدی، الاطہر اور چند ایک گمنام تاریخ دان شامل ہیں"۔
یہیں سے مصنف کی جعل سازی کی قلعی اترنی شروع ہوتی ہے۔ ان چند جن تاریخ دانوں کا ذکر کیا ہے، ان میں اسد الاسدی، الاطہر اور سراج الدین نام کے تاریخ دان گزرے ہی نہیں جنکے کھاتے میں مصنف نے سولہ سو صفحات کی کتاب ڈال دی ہے۔
اس سے بڑا بلنڈر واقدی کا نام لکھ کر کیا۔ عنایت اللہ صاحب کو یہ تک پتہ نہ تھا معروف سیرت نگار اور مورخ 207 ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی پیدائش سے بھی سوا تین سو سال پہلے وفات پا چکے تھے بھلا کیسے ان کی کتابوں سے مصنف نے سلطان ایوبی کے متعلق استفادہ کیا۔
رہ گیا قاضی بہاؤ الدین شداد جس کی کتابوں سے مصنف کا دعویٰ ہے کہ اس نے تاریخ نکالی وہ بھی بلنڈر زدہ ہے۔ قاضی بہاوالدین شداد کی یادشتوں پر مشتمل کتاب "النوادر سلطانیہ"جس کا مصنف کو نام بھی نہیں معلوم اس سے "استفادہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں" قاضی بہاؤ الدین شداد اپنی یادشتوں کی دوسری جلد میں لکھتے ہیں"۔
دلچسپ بات یہ کہ شداد کی وہ کتاب فقط ایک جلد میں اڑھائی سو صفحات پر مشتمل ہے جس کی دوسری جلد خود سے گھڑ کر بڑے دھڑلے سے اس کا حوالہ بھی دے ریے ہیں۔
مولانا اسماعیل ریحان جو جامعہ رشیدیہ کے مدرس ہیں، انھوں نے داستان ایمان فروشوں کی ایک تحقیقی جائزہ "کے نام سے کتاب لکھی ہے، جو بنیادی طور پر میری تحریر کا محرک بنی، مولانا نے اس کتاب میں جو کلاس لی ہے عنایت اللہ کی وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
ہمیں تو مولانا سے بھی اختلاف وہ خواہ مخواہ سلطان الدیں ایوبی کو ابدال وقت ثابت کرنے میں پورے کتاب لکھ گئے۔ مگر ناول کے اوپر چڑھی تاریخی حقائق کی قلعی اتار گئے۔
تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں رومانس اور اسلامی رومانس میں فرق کر سکیں۔