Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Bhagat Singh

Bhagat Singh

بھگت سنگھ

انقلابی دہشتگرد کی اصطلاح غالباً رومیلا تھاپر نے وضع کی تھی بھگت سنگھ کے لیئے۔۔ اور وہ تھا بھی۔۔ مگر میرے خیال میں بھگت سنگھ ہندوستان کا چے گویرا تھا مگر اس ہندی چے گویرا کو کوئی فیڈرل کاسترو نہ مل سکا۔۔ جو ملے وہ تھے مہاتما گاندھی اور ان کی عدم تشدد والی ہومیو پیتھک سیاست۔۔ جس سے بھگت سنگھ کبھی اتفاق نہ کر سکا۔۔

بھگت سنگھ اسی لیئے اپنی آخری وصیت To a young political worker میں گاندھی کی سیاست کے بارے میں کہتا ہے۔۔

"یہ گاندھی کی عدم تشدد کی سیاست کچھ کر نہیں سکتی سوائے اس کے کہ ایک استحصال کرنے والے کی جگہ دوسرا لے لے۔۔ "

جتنے بھی ہیروز بنتے ہیں وہ صیح وقت کی پیدوار ہوتے ہیں۔۔ قربانیاں ان سے زیادہ لوگوں نے دی ہوتی ہیں مگر ان کا نام کوئی نہیں جانتا اور وہ تاریخ کے گڑھوں میں دفن ہو جاتے ہیں مگر جن کی قربانی یا کام وقت کے ساتھ میل کھا جائے وہ بھگت سنگھ کی طرح ہیرو بن جاتے ہیں۔۔

مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والا بھگت لڑکپن سے ہی انقلاب کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔۔ اس کی سکولنگ اچھی ہوئی تھی اس لیئےکم عمری میں ہی مارکسی لٹریچر سے تعلق پیدا کر لیا۔۔ لینن ازم سے بھی خاصا متاثر تھا۔۔ برصغیر کے اولین سوشلسٹوں میں بھگت سنگھ کا شمار ہوتا ہے۔۔ اس کے ذہن پر مارکس۔۔ لینن۔۔ غدر پارٹی کے گہرے اثرات تھے جس نے اسے تشدد والی سیاست کہ جانب دھکیل دیا۔۔ مگر ایک بات ماننی پڑے گئی۔۔

عام طور پر انقلابیوں کی کھوپڑی میں جذبات کی مقدار عقل کی مقدار سے زیادہ ہوتی ہے مگر بھگت سنگھ تھوڑا دانشور ٹائپ تھا۔۔ اس نے روسی انارکسسٹ میخائل الیگزینڈر وچ کی تحریروں سے بھی خاصا اثر قبول کیا تھا۔۔

میخائل انارکسزم کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔۔ اس نے کارل مارکس پر تنقید کرتے ہو کہا تھا۔۔ کیموزم پرولتاریہ یعنی مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ ہے۔۔

بھگت سنگھ بڑا کٹر انارکسسٹ تھا۔۔ ریاستی اداروں کو فرد کی آزادی کا قاتل سمجھتا۔۔ کیرتی میں اس نے بہت سے مضامین لکھے اس میں انارکسزم کے بارے میں بھگت سنگھ کہتا ہے۔۔

"لوگ انارکسزم سے ویسے ہی ڈرتے ہیں حالانکہ انارکسزم نام ہے حکمران اور ریاست کے خاتمے کا نہ کہ قانون کے خاتمے کا۔۔ تاکہ لوگ ریاست کی بیڑیوں سے آزاد ہو کر جی سکیں۔۔ "

یہ انقلابی لڑکا زیادہ دیر چپ نہ رہ پایا۔۔ مشہور نیشنسلٹ لیڈر لالہ لچپت رائے پولیس لاٹھی چارج سے زخمی ہو کر چل بسے۔۔ اس کا بدلہ لینے کے لیئے بھگت سنگھ نے پولیس کے انگریز افسر کو مارنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر مار غلط انگریز افسر سانڈرس کو دیا۔۔ مگر بھگت سنگھ رکا نہیں۔۔ کئی انقلابی کانٹھ کرنے کے بعد بالآخر دہلی کی پارلیمنٹ میں جاکر بم مارے اور گرفتار دے دی۔۔ سال ڈیرھ ٹرائل چلا اس ٹرائل نے اسے ہندوستان کا ہیرو بنا دیا۔۔ گاندھی جی نے اس کی ہمیشہ مخالفت کی۔۔ غالبا رومیلا تھاپر نے کسی جگہ بڑا کمال کا جملہ لکھا تھا۔۔

"بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس گاندھی کے لیئے ویسا ہی مقام رکھتے تھے جو مارٹن لوتھر کنگ کے کیئے میلکم ایکس رکھتا تھا"

مگر بہرحال جہاں بھگت سنگھ کچھا انقلابی تھا وہیں سبھاش چندر بوس یا نیتا جی منجھے ہوئے کھلاڑی تھے۔۔ کانگریس کے اعلی عہدوں پر رہ کر بغاوت کی راہ چننے والے نیتا جی کا طلسم گاندھی جی سے بھی زیادہ تھ۔۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج سے ہی ہندوستانی فوجیوں کو پھسلا کر آزاد ہند فوج نکال لی۔۔ جسے جاپانیوں کاآشرباد حاصل تھا۔۔ مگر نیتا کی موت پراسرار تھی۔۔ اس پر بوس کے نام سے ایک ڈاکومنٹری بھی آئی ہے ضرور دیکھیں۔۔

جو بھی ہو۔۔ وقت نے تو یہ ثابت کیا کہ بھگت کا طریقہ کار ناکام تھا اور گاندھی کا فلسفہ جیت گیا۔۔ کیونکہ انقلاب کے نام پر دہشگردی سے آپ کچھ اکھاڑ نہیں سکتے سوائے عوام کی نظر میں ہیرو بننے کے اور خود کو سولی لگوانے کے۔۔ بھگت سنگھ نے بھی یہی کیا۔۔

عدم تشدد والی سیاست تھوڑی مشکل اور صبر آزما ہوتی ہے

۔۔ مگر کامیاب بھی وہی ہوتی ہے۔۔ چاہے وہ نیلسن منڈیلا کی ہو یا گاندھی کی یا جناح کی۔۔ انقلابی دہشگردی والے ہیرو تو دے جاتے ہیں قوم کو آزادی نہیں۔۔

بہر حال بھگت سنگھ کے انقلاب زندہ باد کو دہشگردی قرار دے کر اسے اس کے ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو سمیت پھانسی لگا دیا گیا۔۔

شاید بھگت سنگھ آخرت اور مذہب ہر یقین نہیں رکھتا تھا۔۔ اپنے مضمون۔۔ میں ملحد کیوں ہوں۔۔ میں بھگت سنگھ کہتا ہے۔۔

"اس میں تو شک نہیں کہ مذہب موت کو آسان بنا دیتا ہے مگر غیر ثابت شدہ فلسفے پر ایمان لانا انسان کی کمزروی کی علامت ہے۔۔ "

مگر جس فلسفے پر بھگت سنگھ ایمان لایا تھا وہ بھی ثابت شدہ نہیں تھا جس نے اس کے لیے موت کا رثستہ آسان کر دیا تھا۔۔

Check Also

Hamare Khawab

By Azhar Hussain Bhatti