Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Barelviat Ka Osho

Barelviat Ka Osho

بریلویت کا اوشو

جھنگ نے دو بڑے جھنگوی پیدا کیئے، ایک جھنگوی بم بارود والا تھا دوسرا دم درود والا۔ ایک روحانیت و سیاست کا دلدادہ تھا دوسرا ملائیت کا پیکر۔ موخر الذکر حق نواز جھنگوی تو اپنی ہی انتہا پسندی کی بلی چڑھ گے۔ مگر اول الذکر جھنگوی مولانا طاہر القادری خاصے ہوشیار نکلے۔ دیار مشرقِ سے ڈوبے اور دیار مغرب کے برفیلے خطے کینیڈا سے جا کر طلوع ہوئے۔

طاہر القادری صاحب خاصی متنوع شخصیت ہیں، سر پر نیم قراقلی ٹوپی، بدن پر رجنیش اوشو کی طرح لمبا چوغہ، مزاج صوفیانہ، گفتار مفکرانہ، مشاغل رندانہ اور طرز زندگی شاہانہ، بلا کے مقرر ہیں، بولنے پر آئیں تو لگتا ہے مقدمہ ابنِ خلدون کو زبان عطا ہوگئی ہے۔ دوران خطابت الفاظ ابل ابل کر باہر کو گرتے ہیں۔ چھوڑنے پر آئیں تو مولانا رُومی کو آسمان سے اونچی چھلانگ مروا دیتے ہیں اپنی تقریر میں۔ صوفیانہ مزاج کی وجہ سے کبھی کبھی خرد پر قلب کو حاوی کر دیتے ہیں۔ ایک دفعہ اپنا کوئی خواب سنا بیٹھے کہ حضور ان کے خواب میں آئے اور مجھے کہا کہ میں پاکستان آؤں گا اور تم میری مہمان نوازی کرو گئے اور میں فلاں ہوٹل میں رہوں گا۔ اس پر وہابی انکے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے۔

طاہر القادری صاحب اسلام کا سالانہ پیکچ ہیں۔ ان کے ہاں سیاست بھی ملے گئی، فلسفیانہ فکر بھی ملے گی، اور تصوف بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا نظر آئے گا۔ عموماََصوفی سیاسی نہیں ہوا کرتے مگر یہ خاصے سیاسی صوفی ہیں۔ منہاج القرآن لاہور میں مثنوی مولانا روم کے دروس بھی دیتے ہیں اور ڈی چوک اسلام آباد میں رموز سیاست بھی سلجھاتے دیکھائی دیتے ہیں۔

صوفی گھر میں پیدا ہونے والے طاہر القادری کی تربیت میں شیخ طاہر علاؤالدین القادری کا بہت اہم کردار رہا، شیخ علاؤ الدین عراق میں غوث پاک کے مزار کے گدی نشین تھے جو بعدازاں پاکستان آکر مقیم ہو گئے تھے۔

بلا کے ذہین تھے، تعلقات بنانے کے فن سے آشنا تھے۔

منھاج القرآن نامی تنظیم کی بنیاد رکھی، تفسیر القرآن لکھی، درجنوں کتابچوں کے مصنف ہیں۔

منھاج القرآن بریلوی مکتبہ کی انٹیکلچوئل فرنچائز ہے۔ اس میں ماڈرنٹی، تصوف اور سیاست تینوں کا توازن نظر آتا ہے۔ بنیادی طور طاہر القادری صاحب بذات خود ماڈرن ازم سے خاصے متاثر ہیں، مگر وہ اس کے ساتھ ساٹھ روایتی مذہبی فکر کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتے، اس کے لیے انھوں نے خاصا درمیانہ راستہ نکالا، غامدی صاحب کی طرح سواد اعظم کو ٹکر دیئے بغیر مکھن میں سے بال کی طرح نکل گئے۔ وہ ڈانگ تو اٹھاتے ہیں مگر مارتے وقت سانپ کو بچا لیتے ہیں۔

قادری صاحب اسلام کو نظام کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے فکری انقلاب کی ضرورت ہے جو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہوگا۔ جس کے بعد معشیت، سیاست اسلام کے تابع ہوں گی۔

اجتہاد کے خاصے قائل ہیں۔ خلفائے راشدہ کے دور کے ہر کونے سے کھرچ کھرچ کر جمہوریت بھی نکال لیتے ہیں۔ پھر جمہوریت کو بھی کلمہ پڑھوا کر تھیو کریسی میں بدل دیتے ہیں۔ میثاق مدینہ سے کھینچ تان کر چارٹر آف ڈیموکریسی کی ستر شقیں کھود نکالیں اور اسی عنوان سے پورا کتابچہ لکھ ڈالا۔

مغربی تھیو کریسی اور اسلامی تھیو کریسی میں فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں"مغربی تھیو کریسی میں ایک مذھبی ایلیٹ کلاس خدا کے نام پر اپنی طاقت نافذ کرتی تھی مگر اسلامی تھیو کریسی میں خدا کی حاکمیت کے نفاذ کے واسطے ایک مخصوص مذھبی اشرافیہ کے بجائے پورا معاشرے کا قبولِ کرنا لازم ہے"۔ بحوالہ لیکچر: Islamic state

مجھے نظام بدلنے کی باتیں کرنے والوں اور مذھب کو ایک بطور نظام پیش کرنے والوں سے ہمیشہ یہی اختلاف ہوتا ہے۔ مذاھب اخلاقی ہوا کرتے ہیں۔ مذھب سیاسی اور معاشی نہیں ہوا کرتے۔ نبی آکر سیاست کے رموز نہیں سلجھایا کرتے اور نہ ہی وہ جمہوریت اور آمریت کے فلسفے دیا کرتے ہیں اور نہ ہی نبیوں کی تعلیم کا مقصد معاشی تھیوریز دینا ہوتا ہے اور نہ ہی نظام بدلا کرتے ہیں انقلاب سے، بلکہ اور بھی بھیانک ہو جاتے ہیں۔

طاہر القادری ماڈرن اپروچ کے ساتھ اسلام کا بول بالا کرنا چاھتے ہیں۔ دین اور مذھب میں فرق کرتے ہیں۔ مذھبی اور دینی تعلیم میں فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں"فقہ اور حدیث کی کتابوں کو رٹ لینا مذھبی تعلیم ہے مگر ان مذھبی تعلیمات کو جدید دور کے ساتھ مطابقت کر ان کے عملی نفاذ کی راہ ڈھونڈنا دینی تعلیم ہے"۔

مذھبی تعلیم کی مطابقت جدید دور کے ساتھ کرنے کی کوشش بیسویں صدی کے مسلم مفکرین کا ذہنی خلجان تھا، جو ماڈرن ازم کی تاب نہ لا کر اپنے مذھبی تعبیر پر ٹاکیاں مار کر اسے ماڈرن ازم کی چمک کے مقابلے میں اتارنا چاھتے تھے۔ اس کوشش میں ان سے کئی بلنڈر سرزد ہوئے۔ مذھب سے معاشیاتِ اور سیاسیات کے وہ وہ فلسفے نکالے گئے جو مذھب کا مقصود ہی نہ تھے۔ مذھب کو دور جدید کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی انقلابی کوشش اسے گدلا کر دیتی ہے۔ مذھب ارتقاء کے ساتھ ساتھ خود کو ہم آہنگ کر لیتا ہے زمانے کے ساتھ، مگر اس کا نتیجہ معشیت اور سیاست سے زیادہ کلچر کے میدان میں نکلتا ہے۔

طاہر القادری صاحب تصور جہاد کے بارے میں خاصے ہومیوپیتھک ہیں، دم درود والے جہاد کے قائل ہیں۔ بم بارود والے جہاد سے خاصے بدکتے ہیں۔ terarisom and suicide bombing کے نام سے ایک ضخیم فتویٰ لکھا، جس میں حضرت نے ثابت کیا کہ اسلام کا دہشتگردی اور خود کش بمباری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اس سمے مشرف کی حکومت تھی، امریکہ نے بھی وار اون ٹیرر پر آستنین چڑھائی ہوئی تھیں، اس لیے قادری صاحب کے فتوے کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ مگر قادری صاحب فتوے میں یہ نہ بتا پائے کہ اگر اسلام کا خود کش بمباری کے ساتھ تعلق نہیں ہے تو، تارا سنگھ، اشوک کمار یا پیٹر جیکسن کیوں نہیں جیکٹیں باندھ کر خود کو اڑاتے، یہ ہر بار عبداللہ، فضل اللہ، اسامہ، طارق ہی کیوں خود کو اڑاتے ہیں۔ تاریخ اسلام کے فدائی دستے جیسی کتابیں پادری یا پنڈتوں نے نہیں لکھی تھیں بلکہ ہمارے ملاؤں نے لکھی تھیں، جس نے ان بمبار ذہنوں کو تیار کیا تھا۔ اگر اس سب کا اسلام کے ساتھ تعلق نہیں تو پھر کس کے ساتھ ہے۔

قادری صاحب کو کبھی کبھی عملی انقلاب کا دورہ بھی پڑتا ہے۔ آخری بار یہ دورہ دس پہلے خان کے ساتھ دھرنے میں پارٹنر شپ کی صورت میں پڑا تھا۔ اس کے بعد سے کینیڈا میں بیٹھ کر پاکستان میں وائی فائی انقلاب برپا کرنے چاھتے ہیں۔ اندونی سوتر کے انوسار تو قادری صاحب بھی عسکری اشارے پر انقلاب برپا کرنے آئے تھے، مگر پھر جلد ہی کھسک گئے۔ انقلابی مفکرین میں سب سے سمجدار بھی ڈاکٹر طاہر القادری ہی نکلے۔

مودودی صاحب بھی کچھ نہ بنا سکے اپنے خاندان کے واسطے، ڈاکٹر اسرار صاحب بھی سفید پوشی کی زندگی گزار گئے۔ مگر قادری صاحب تو فائیو سٹار زندگی گزارتے ہیں۔ میں انھیں بریلویوں کا اوشو کہتا ہوں۔ اوشو بھی انڈیا چھوڑ کر امریکہ چلے گے تھے اور وہاں ایک جہاں آباد کیا تھا جس کے سپر سٹار وہ خود تھے۔ قیمتی پوشاکیں پہنتے، لیموزین اور مرسڈیز سے نیچے قدم نہ رکھتے، فینسی انگریزی بولتے، قادری صاحب نے بھی دیہاڑ تو خوب لگائی، پاکستان چھوڑا، کنیڈا میں بسیرا کیا، فقر کے درس برانڈڈ زندگی کے ساتھ دیتے ہیں۔ منھاج القرآن کے اثاثوں پر بیٹوں سمیت لگژری زندگی انجوائے کرتے ہیں اور ساتھ فکری انقلاب کے پکوڑے تصوف کی کڑاہی میں تل کر پیش کرتے رہتے ہیں۔

مہنگی سے مہنگی گاڑی، پوتے کی شادی ہر فائیو سٹار تقریبات، کسی مرید نے یہ نہ پوچھا کہ جھنگ کے مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والے علامہ صاحب کے پاس اتنی دولت آئی کہاں سے۔

امیر پیر نہیں ہوتا اسے داتا مرید بناتے ہیں۔

Check Also

Europe Aur America Ka Munafqana Khel

By Asif Masood