Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Al-Huda Se Al-Juda Tak

Al-Huda Se Al-Juda Tak

الھدی سے الجدا تک

زندگی کا ایک دلچسپ سال الھدی انٹرنیشنل اسلام آباد میں گزرا۔ کیا دن تھے۔ وہ اشک سحر گاہی سے وضو کرنا، آدھی رات کو اسلام آباد کے نیم سرد موسم میں لذیذ لحاف سے نکل کر ٹھنڈے ٹھار پانی سے وضو کرنا، گھٹنہ بھر تہجد کے واسطے کھڑے رہنا، صبح آٹھ بجے سفید کرتا پہن کر بھاگم بھاگ تجوید کی کلاس کے لیے پہنچنا۔

لیٹ ہونے کی صورت میں کورڈانیر صاحب کی تیز نظروں سے بچ کر نشست تک پہنچنا اور پورا دن قرآن کی تفسیر و تاویل کے اسرار و رموز سیکھنے میں گزارنا۔

الھدی انٹرنیشنل میں آیا بھی حادثاتی طور پر تھا۔ یہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کا پراجیکٹ تھا، جہاں خواتین کے لئیے تعلیم القرآن کے منظم کورس کا بندو بست تھا۔ یہ پہلے صرف جامعہ للبنات تھا مگر بعدازاں اس کا ایک الگ حصہ للبنین (مرد حضرات)کے واسطے مختص کر دیا گیا۔

اس زمانے میں میں مودودی صاحب کی تفہیم القرآن پر طبع آزمائی کر رہا تھا کہ معلوم ہوا الھدی والے بھی تفسیر القرآن نامی کوئی ایک کورس کروا رہے ہیں اسلام آباد میں جو ایک سال کے عرصے پر محیط ہے۔ ہم بھی بوریا بستر لے کر الھدی انٹرنیشنل کے پھاٹک پر پہنچ گے۔

کیا دیکھتا ہوں، ایک گیٹ پر ایک ڈسک لگی ہوئی ہے، ایک کوٹ پتلون میں ملبوس باریش صاحب نام رجسٹری میں جٹے ہیں، ایک اور جینز پہنے داڑھی والے حضرت ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔

ہمارا پالا تو کرتے دھوتی والے مولویوں سے پڑا تھا، جینز والے مولویوں کا تجربہ نیا تھا۔

انھوں نے نام پوچھا، اسلامابدی نستعلیق لہجے میں باقی کوائف معلوم کیئے۔

بارک اللہ بارک اللہ کے الفاظ کے ساتھ مرحبا کہا۔

یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ بارک اللہ الھدی کا تکیہ کلام تھا۔ دن میں اتنی دفعہ بارک اللہ سنتے۔ کہ ایک دفعہ پنڈی کے کوئٹہ ہوٹل پر جب پٹھان ویٹر نے پوچھا کہ۔ کیا لاؤں۔

بے خیالی میں منہ سے نکل گیا۔

بارک اللہ۔

الھدی کی دنیا خاصی دلچسپ تھی۔ ہمارے کورس انچارج تیمور صاحب خاصی نفیس شخصیت تھے۔ اکثر شرٹ پینٹ پہنتے۔ دھیمے دھیمے لہجے میں انگریزی الفاظ کے تڑکے کے ساتھ اردو بولتے۔

ڈاکٹر ادریس زبیر صاحب جو تفسیر القرآن کی کلاس لیتے۔ خاصے خوش لباس تھے۔ بڑھاپے میں بھی خود کو خاصا فٹ رکھا ہوا تھا۔

یہیں پہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے عمران مرزا سے دعا سلام ہوئی۔ یہ پہلے جماعتی مُجھے ٹکرے تھے جو تھوڑے صاحب مطالعہ تھے۔ نہیں تو جتنے جماعتی مجھے آج تک ٹکرے ہیں ان میں صرف اللہ کی دھرتی پہ اللہ کے نظام والی ہی کیسٹ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ذہنی لحاظ سے کنگلے ہوتے ہیں۔

خیر اب تو عمران صاحب بھی جھنگوی کا جماعتی ترجمہ بنتے جا رہے ہیں۔

عبد الرحمن ٹھوڑی چل طبیعت کا تھا۔ اس سے بڑا یارانہ تھا۔ ہم نے کتنی نشستیں نظریاتی گتھیاں کھنگالنے میں ساتھ ہی بھگتائیں۔ پہلے تو وہ ہلا پھلکا آزاد خیال تھا۔ پھر استاد محترم خلیل چشتی صاحب سے متاثر ہو کر طاغوت کا خاتمہ کرنے پر تل گیا۔ اب مجھے محسوس ہو رہا کہ دوبارہ سے "راہ راست" پر آرہا ہے۔

گجرات کا چودھدری حمزہ مدثر بھی خاصا دلچسپ انسان تھا۔ مستنصر حسین تارڑ، نمرہ احمد کے ناولوں کا شیدائی۔ ہم دونوں کتابوں کے ٹھرکی تھے تو خوب جمتی اور بھی کئی دوست یاد آرہے ہیں جن کا ذکر پھر سہی۔

بات تعلیم القرآن کورس کی ہورہی تھی۔ ہم نے کمر کس کے کلاسز لینا شروع کردیں۔

پہلی کلاس تجوید کی ہوتی۔ گھنٹہ بھر نرخرے سے لے کر حلق تک کے ہر انگ سے عربی قائدے کی ایک ایک حرف کی صوتی ادائیگی کا ٹھکانہ معلوم کرنے کی مشق کرنا، ہم جیسے بے سرے جو مادری زبان کی ادائیگی میں بھی صوتی نزاکتوں کا خیال نہیں رکھ پاتے وہ کہاں بحیرہ عرب کے اس پار کی زبان کے تلفظ ٹھیک کرتے پھرتے۔

مگر خدا خدا کرکے۔ حلق کے درمیان سے خ اور غ کی آواز برآمد کر پایا۔ مگر ض کا "آفیشل" مقام زبان کے کنارے کو دھاڑوں کے جوڑنے سے بنتا تھا۔

اب اتنی زبانی مشقت تو میں نے دادا حضور مرحوم کی نگرانی میں نہیں کی تھی تو اب خاک کر پاتا۔

علوم القرآن کی کلاس بھی خاصی خوب رہتی۔ طارق صاحب کراچی والی اردو میں علوم قرآن کے سربستہ راز ہم منکشف کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔

کبھی کبھی ڈاکٹر سمیع اللہ زبیری صاحب بھی ان وارد ہوتے۔ زبیری صاحب شگفتہ مزاج تھے، بلا کا حافظہ، عربی چوغے میں سوٹ کوٹ زیب تن کرتے۔ عربی کی چلتی پھرتی دوکان تھے۔ بلاغت میں اپنی مثال آپ۔

اس سے اگلی تفسیر القرآن کی کلاس ہوتی۔ یہ سب سے دلچسپ کلاس ہوتی۔ پہلے جو آیات پڑھانا مقصود ہوتیں ان کی تلاوت قاری مشاری کی آواز میں سنائی جاتی۔ اس کے بعد ڈاکٹر ادریس زبیر صاحب تفصیلی کلاس لگاتے اور ہم تفسیری نکات کو آیت وار ہاتھ سے لکھتے جاتے۔

اس بندہ یزداں و راندہ درگاہ جہاں نے بھی کسی دور میں تقریباً پورے قرآن کے تفسیری نکات اپنے ہاتھ سے لکھے تھے۔

پیچھے مڑ کر دیکھ کر سوچتا ہوں کیا سے کیا ہوگیا۔ درماں سے اماں نہ ملی تو یزداں بھی چھوٹ گیا۔

جوش ملیح آبادی نے لکھا تھا کہ جوانی میں پرہیزگار ہونے والے کو مودودی صاحب کی اصطلاح میں جوان صالح کہتے ہیں مگر اہل نظر کی نظر کی اصطلاح میں مخنث کہا جاتا ہے۔

پتہ نہیں یا تو جوان صالح کے لقب کی قربانی منظورِ تھی یا اہل نظر کی بدنظری سے بچنے کی تمنا تھی کہ الھدی سے فراغت کے بعد سارے تفسیری، تجویدی و روحانی بکھیڑوں سے "الجدا" ہوتا گیا۔

Check Also

Saf Bandi Behtar Nahi

By Mojahid Mirza