Sunday, 29 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Ahmadiat

Ahmadiat

احمدیت

مرزا غلام احمد قادیانی کی ابتدائی اٹھان بڑی شاندار تھی۔ عیسائی مشنریوں سے بڑے معرکہ الآرا مناظرے کیئے۔ جس کے باعث ان کی علمیت کا ڈنکا برصغیر کی مسلم علمی دنیا میں بجنا شروع ہوا۔ مولانا بٹالوی جیسے علماء نے خصوصی شمارہ نمبر مرزا صاحب کی توصیف میں شائع کیئے۔ اقبال جیسے مفکر کو یہ کہنا پڑا کہ جس نے اصل اسلام دیکھنا ہے جاکر قادیان میں دیکھے۔

پھر مرزا صاحب نے مسیح موعود کا دعویٰ کر دیا تو سارے تعریفیں کرنے والے مولویوں نے کمر سیدھی کر لیں مرزا کے خلاف۔ شروعات مولانا ثناء اللہ امرتسری نے کی، مرزا صاحب سے مشہور مباہلہ کرنے والے بھی امرتسری صاحب ہی تھے۔

اس کے بعد مجلس احرار والوں نے بھی عطاء اللہ شاہ بخآری کی قیادت میں ڈانگیں سیدھی کر لیں اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کرنے لگے کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کے راہنما قائد اعظم کے خیالات قادیانیوں کے بارے میں بڑے لبرل تھے۔

چار مئی 1944 کے ڈان اور وطن اخبار کی رپورٹ کے مطابق قائد اعظم نے MLA پیر اکبر علی سے وعدہ کیا تھا۔ "احمدیوں کے ساتھ بالکل اسی طرح برتاؤ رکھا جائے گا جیسے مسلمانوں کے باقی فرقوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے"۔

مئی 1944 کی کشمیری مسلم کانفرنس کے اجلاس میں جو سرینگر میں ہوا تھا۔ جب قائد اعظم سے قادیانیوں کے status کی بات پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا "مسلم لیگ ہر بالغ مسلم کو بغیر کسی مسلکی تفریق کے اپنی سیاسی جماعت میں شامل کرتی ہے"۔

پھر قائد نے کہا "میں کسی ایسے شخص کو غیر مسلم کیسے قرار دے سکتا ہوں جو خود کو مسلم کہے"۔

یہی وجہ تھی قائد اعظم نے سر ظفر اللہ خان جو احمدی تھے انھیں اپنا وزیر خارجہ بلا جھجک مقرر کیا۔ اینٹی قادیانی تحریک کو سیاسی مفاد کے لیئے استعمال کرنےکا آغاز جماعت اسلامی اور احرار والوں نے کیا۔

یاسر ندیم ہمدانی اپنے آرٹیکل A short history of ahmadi persecution میں لکھتے ہیں"1952 میں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے دو افسران ملتان آئے جہاں عطاء اللہ شاہ بخآری ان دنوں مقیم تھے۔ انھوں نے اعلی عہدوں پر بیٹھے غیر اسلامی عناصر کو ہٹانے پر تحریک چلانے کے لئے شاہ جی کو ابھارا جس کے پیچھے کا ان افسران کا مقصد سر ظفر اللہ خان کو کھڈے لائن لگانا تھا اس کے لئے ان افسران نے شاہ صاحب کو مولانا مودودی سے رابطہ کرنے کے لیئے بھی کہا"۔

اسی عرصے میں قادیانیوں کے خلاف احراریوں اور جماعت اسلامی نے ہنگامے شروع کر دیئے جس میں سیکڑوں احمدی مار دیئے گئے۔ حالات اس قدر خراب ہوئے کہ 1952 میں ملٹری کو عارضی مارشل لاء لگانا پڑا۔ سیکنڑوں ہلاکتوں کے الزام میں مودودی صاحب دھر لئے گئے اور انھیں سزا موت تک سنا دی گئی۔

یہ جتنے بھی ختم نبوت کے نام پر چندے اینٹھنے والے مافیا ہیں انھیں ختم نبوت سے کوئی سروکار نہیں انھیں بس مرزا قادیانی بنا بنایا ایک ولن مل گیا ہے اور سے ہی کیش کرا رہے ہیں۔ باقی انھیں ختم نبوت کا مطلب تک معلوم ہے۔ اگر مطلب معلوم ہوتا تو پھر یہ بڑے بڑے محدثین اور اولیاء کے خلاف بھی ختم نبوت کی تحریکیں چلا رہے ہوتے۔

ختم نبوت کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ اس دنیا کے آخری انسان ہیں جن کا اللہ کے ساتھ رابطہ تھا۔ اگر اس کے بعد کوئی شخص اس خدائی رابطے کا دعویٰ کرے تو اسے ختم نبوت کا انکار سمجا جائے گا۔

اس کے بعد آپ صوفیاء کا لٹریچر اٹھا کر پڑھ لیں۔ ایک سے ایک خدائی رابطے کا دعویٰ ہے۔ اس دعویٰ کو پرکشش بنانے کے لیے علم لدنی کی اصطلاح تیار کی گئی۔ جب وحی آگئی تھی تو پھر یہ علم لدنی کی کیا ضرورت تھی۔ کشف کے ذریعے اللہ سے رابطے کی راہ ہموار کرنے والے کون تھے۔

شیخ الاکبر کہلائے جانے والے مشہور صوفی ابن عربی فصوص الحکم میں یہاں تک کہہ دیتے ہیں"ہم ٹھیک وہیں سے لیتے ہیں جہاں سے انبیاء لیتے تھے"۔

یہ کیا ہے۔ کیا ختم نبوت میں دراڑ مرزا نے ہی ڈالی تھی۔ ہم نے خود چور دروازے کھولے۔ نبی کے بعد محدث کو اختیار دینا کہ وہ اپنے فہم کے مطابق روایات کو وحی خفی قرار دیتا پھرے۔ یہ کیا تھا، کیا یہ ختم نبوت کا انکار نہیں تھا۔ وحی کیا ہے یہ بتانے کا اختیار نبی کے پاس ہوا کرتا ہے یہ اختیار محدثین کے پاس نہیں ہوا کرتا۔ پھر چلاؤ امام بخآری مسلم کے خلاف تحریکیں۔

ہر طرح کے چور دروازے ہم نے خود کھولے۔ روایات سے امام مہدی کا کردار نکال لیا اور امام کے انتظار میں پچھلے ہزار سے بیٹھے ہیں۔ اب تک سیکنڑوں امام مہدی کہلوانے بھی اچکے ہیں۔ ہر سال ایک فراڈی خود کو امام مہدی باور کروانے کھڑا ہو جاتا ہے۔

اگر مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف نبوت کا دعویٰ نہ کیا ہوتا تو وہ آج شیخ الاکبر، رہبر طریقت یا قطب زمان کے درجے پر فائز ہوتا۔ کیونکہ اکابر نے دعوے تو مرزا صاحب سے بھی بڑے کیئے تھے مگر انھوں نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے دعویٰ نبوت نہیں کیا اور مرزا صاحب بے وقوفی میں مارے گئے۔

یہ جتنے بھی ختم نبوت کے نام نہاد محافظ بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے اپنے اکابر نے ہی اس ہر ضربیں لگائی ہیں۔ مگر یہ تحریک صرف قادیانیوں کے خلاف چلائیں گئے کیونکہ اکابر سے اختلاف پر چندہ کا ڈبہ خالی رہ جاتا ہے۔

Check Also

Jhompri Mein Sakoon Aur Mahal Ki Daur

By Adeel Ilyas