Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Ahal e Hadees

Ahal e Hadees

اہلحدیث

اہلحدیث مسلمانوں کے پروٹسٹنٹ ہیں۔ آباء کے عقائد کے انکاری، سابقہ روایات کے کافر۔ اکابر پرستی سے منہ موڑنے والے۔ مگر اکابر پرستی سے انکار نے انھیں اپنی تاریخ سے بھی بیگانہ کر دیا ہے۔ اسی فیصد سے زائد اہلحدیثوں کو ان کی اپنی تاریخ کا نہیں پتہ۔ یہ نہیں جانتے کہ سید نذیر حسین کون تھے۔ یہ نہیں جانتے کہ نواب صدیق حسن خان کون تھے۔ نوے فیصد اہلحدیثوں کو یہ نہیں پتا کہ مولانا عبد الحق بنارسی کون تھے۔

یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اہلحدیث کی بنیاد رکھی برصغیر میں۔ اہلحدیث کی ابتدائی مگر غیر منظم بنیاد شاہ ولی اللہ کے دور میں رکھی گئی۔ اسی کو شاہ عبد العزیز نے آگے بڑھایا۔ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید اہلحدیث کے سر خیل بنے اور اس کی تبلیغ میں بھرپور کردار ادا کیا۔ تحریک مجاہدین نے جن جن علاقوں میں اپنا ٹھکانہ بنایا وہاں اہلحدیث کثیر تعداد میں آج بھی آباد ہیں۔ خاص کر ہزارہ کے علاقے میں۔

تحریک اہلحدیث بدعت کی درانتی سے برصغیر کے مسلمان کو ہندوستانی تہذیب سے کاٹ کر عرب کے قبائلی کلچر سے جوڑنے کا نام تھا۔ اس نے ہندوستان میں اسلام کے نام پر ایک بیرونی کلچر کو مسلط کرنے کی کوشش کی جس نے بھی اس کلچر کو ماننے سے انکار کیا اسے یہ بدعتی اور مشرک کہنے لگے۔

عربی تہذیب سے ہندوستانی مسلمان کا تعلق تو بہت پرانا تھا مگر اس تعلق میں ہندوستانی تہذیب کا رنگ زیادہ تھا۔ مگر بعدازاں بلکل ہی ایک نئی طرز کی ثقافت کو اپنا کر اپنی مٹی سے کٹنے کی ابتدا وہابیت سے ہوئی۔

اہلحدیث کو نوابی سرپرستی نواب صدیق حسن خان کی صورت میں ملی یہ ریاست بھوپال کے نواب تھے ان کے والد سید احمد شہید کے معتقدین میں شامل تھے۔ وہاں سے وہابیت کا اثر شروع ہوا ان پر۔ بعدازاں نواب صاحب کے استاد عبد الحق بنارسی جو وہابیت کے جید یمنی عالم امام الشوکانی سے پڑھ کر آئے تھے ان سے بہت متاثر ہوئے۔ بعدازاں نواب صاحب کے نجد کے وہابیوں سے اپنے تعلقات پیدا ہوئے۔ کئی علماء نجد سے بھوپال نواب کی چھتر چھایا میں رہنے لگے۔ یہ اہلحدیث کا پہلا رابطہ تھا سعودیہ سے۔

نواب صاحب سمیت زیادہ تر اہلحدیث خود کو وہابی کہلوانا پسند نہ کرتے۔ یہاں دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ اہلحدیث لقب انگریز کی عطا ہے۔ مولانا بٹالوی نے 1887میں برطانوی وائسرائے لارڈ رابرٹ لائٹن سے عرضی کرکے اپنا سرکاری نام اہلحدیث رجسٹرر کروایا تھا۔

اہلحدیث کا دوسرا سعودی رابطہ ساٹھ ستر کی دہائی میں علامہ احسان الٰہی ظہیر کی توسط سے ہوا۔ علامہ صاحب مدینہ یونیورسٹی سے پڑھ کر سلفی پراجیکٹ کے لیئے پاکستان میں لانچ ہوئے تھے۔ یہ رابطہ ریالوں سے لدا ہوا تھا۔ اس دور میں افغان جہاد بھی شروع تھا اور سعودیہ ایران کی سرد جنگ بھی۔ اس میں اہلحدیث سعودیہ کی کٹھ پتلی بنے۔ ان پر ریالوں کی بارش کر دی گئی۔ بے شمار مدرسے سعودی فنڈنگ سے کھلے۔ ان کے بچوں کو سعودیہ کی سکالرشپ دی گئیں۔ یہ وہاں سے سلفیت سے لوڈ ہو کر آتے اور یہاں سعودی آقاؤں کے نظریات پھیلاتے۔ سعودیہ پوری مسلم دنیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھا رہا تھا اس کی طاقت ریال اور مدراس تھے۔ wahabi invesion کے مصنف لکھتے ہیں کہ صرف دو ہزار پانچ میں پینتیس بلین ڈالر کا بجٹ مختص کیا گیا ساؤتھ ایشیاء کے لیئے سعودیہ کی طرف سے سلفی ازم کے پھیلاؤ کے لیئے۔

یہی وجہ ہے پاکستانی مولوی ہر کسی کے خلاف بولیں گئے مگر یہ بھولے سے سعودی عرب کے خلاف بولنے کی جرات نہیں کرتے۔ کیونکہ فنڈنگ جو حلال کرنی ہوتی ہے۔ سعودی مصنف راشد المداوی نے kingdom without borders کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کیسے سعودیہ نے ریالوی چندوں کے دم پر ایسی مذہبی سلطنت قائم کی ہے جس کی کوئی سرحد نہیں۔ سارا کچھا چٹھا اس نے کھول کے رکھ دیا ہے۔

سلفی ازم نے ہمارے ملک میں بہت سے شدت پسند اور دہشگرد پیدا کئے۔ رد بدعات اور نام نہاد تصور توحید نے ان کے اندر بہت ہی خشکی پیدا کردی تھی۔ یہ علاقائی رسومات کو بدعات قرار دیتے ہیں۔ صوفی ازم کے شدید خلاف ہیں۔ قبروں پر جانے کو شرک کہتے ہیں۔ نیز ثقافتی تہواروں سے بائکاٹ سے انھوں نے اپنی عوام سے ہر طرح کی مذہبی انٹرٹینمنٹ کے مواقع چھین لیئے۔ اس چیز نے ان کے اندر سختی اور شدت پسندی پیدا کر دی جو بعدازاں جہادی سرگرمیوں کی صورت میں نکلی۔

موجودہ جتنی بھی شدت پسند، جہادی یا دیشگرد تنظیمیں ہیں ان کا سرا کہیں نہ کہیں سلفی ازم سے ضرور ملتا ہے۔ چاہے وہ القاعدہ ہو۔ بوکو حرام ہو۔ زرقاوی گروپ ہو یا لشکر طیبہ۔ یہاں تک دیوبندی شدت پسند تنظیم سیاہ صحابہ کو بھی بنانے میں سعودی خفیہ ایجنسی کا بڑا ہاتھ تھا۔ جس نے اسے ایران کے خلاف میں پاکستان کی سرد جنگ میں خوب استعمال کیا۔

لشکر طیبہ اہلحدیثوں کا ہی مسلح گروہ تھا۔ اس کا ابتدائی نام مرکز الدعوہ والارشاد تھا۔ جس کے سعودی شیخوں کے ساتھ بڑے گہرے رابطے تھے۔ بعد میں حافظ سعید کو اسٹبلشمنٹ نے اپنی گود میں لے کر کشمیر کے لیئے خوب استعمال کیا۔ لشکر کی طرف سے کشمیر کی جہادی آگ میں جھونکے جانے والے زیادہ تر لڑکے اہلحدیث گھرانوں کے تھے۔ لشکرکے ٹریننگ سینٹر جنھیں معسکر کہا جاتا ہے وہاں اہلحدیث کا لٹریچر کی پڑھایا جاتا ہے۔

مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ساجد میر تھوڑے سیاسی آدمی ہیں۔ علامہ صاحب کے شھادت میں نواز شریف اور جنرل ضیاء الحق کا کردار بیان کیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے ساجد میر صاحب نے سینٹ کی سیٹ کی لالچ میں علامہ کی شھادت کا سودا کیا تھا۔

مگر جہاں ساجد میر دم درود والے سلفی ہیں تو دوسری طرف سلفیوں کے بال ٹھاکرے حافظ سعید بم بارود والے وہابی ہیں۔

Check Also

Qomon Ke Shanakhti Nishan

By Ali Raza Ahmed