Muslim Umma Ki Khamoshi
مسلم اُمہ کی خاموشی
آپ نے کبھی غور کیاہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرتِ اسلام پر ہی کیوں پیدا ہوتا ہے؟ کیوں کہ اسلام امن کا دین ہے۔ مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی آپ کی ریاستی سرحدیں عبور کرتا ہوا آپ کے گھر میں گھس آئے اور آپ اسے امن کا پاٹ پڑھا رہے ہوں۔ ہم کو تو ہمارا دین گھوڑوں کی لگاموں کو کسنے اور تلواریں ہمہ وقت میان سے باہر رکھنے کا درس دیتا ہے۔ ایک مسلمان کی تلوار جب ظلم اور باطل کے خلاف اٹھتی ہے تو وہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا بھی دفاع کرتی ہے۔ ناہید نے حجاج بن یوسف کو کہا تھا:
"اے حجاج اگر تم زندہ ہو تو اپنی غیور قوم کے یتیموں اور بیواؤں کی مدد کو پہنچو۔ میں موت سے نہیں ڈرتی لیکن مرتے وقت مجھے یہ افسوس ہو گا کہ وہ صبا رفتار گھوڑے جن کے سوار ترکستان اور افریقہ کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے ہیں، اپنی قوم کے یتیم اور بے بس بچوں کی مدد کو نہ پہنچ سکے۔"
آج فلسطین کی بیٹیاں چیخ چیخ کر مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کو بلا رہی ہیں۔ مگر شاید وہ یہ بھول چکی ہیں کہ نہ اب کوئی محمد بن قاسم باقی ہے اور نہ ہی اسلام کا علم بلند کرنے والے سپہ سالار۔ وہ اس بات سے لا علم ہیں کہ ان سپہ سالاروں کی عافیہ صدیقی جیسی اپنی بیٹیاں غیر مسلموں کی قید میں سسکیاں لے رہی ہیں۔ انہیں شاید کشمیر کی چیخ و پکار پر ہمارا نغموں سے دیا جانے والا خراج یاد نہیں۔
اپنے ہتھاں نوں اگ لا کے، اپنا جُثہ سیکی جاؤ
لُٹن والے لُٹی جاون، تُسیں بہہ کے ویکھی جاؤ
تاریخ اس بات کی گواہ ہے مسلم سپہ سالاروں نے ہمیشہ دین اسلام کے پھیلاؤ کے لئے دوسری ریاستوں اور علاقوں کی طرف رُخ کیا۔ آج دینِ اسلام کا پھیلاؤ تو درکنار اپنے علاقوں کا دفاع کرنا مسلم حکمرانوں کے لئے مشکل ہو گیا ہے۔ ہم نے آخرالزماں نبی حضرت محمد ﷺ کے بھائی چارے کے درس کو بھلا دیا ہے۔ مہاجر و انصار کے آپسی سلوک پر خاک ڈال چکے ہیں۔ اس بات کو رد کر چکے ہیں کہ امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے۔ ایمان بالکل کمزور ہو چکے ہیں شاید اسی لئے ہم کفار و مشرکین کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ ملکِ پاکستان کی چپکلش ہو تو ہم دیکھتے ہیں امریکا اور روس میں سے ہماری طرف کون ہو گا۔ ہم آپسی اتحاد سے اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ کفار و مشرکین سے مدد طلب کرتے ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت ہے:
"رسول اللہ ﷺ بدر کی طرف نکلے جب آپ ﷺ حرہ الوبرہ(مدینہ سے چار میل کے فاصلہ پر) پہنچے تو آپ ﷺ کو ایک آدمی ملا جس کی جرات و بہادری کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ (رض) نے اسے دیکھا تو خوش ہوئے جب وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، میں آپﷺ کے پاس اس لئے آیا ہوں تا کہ آپ ﷺ کے ساتھ دشمن سے لڑوں اور آپ ﷺ کے ساتھ مال غنیمت میں مجھے بھی کچھ حصہ دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ اس سے فرمایا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا لوٹ جا میں ہر گز کسی مشرک سے مدد نہیں مانگوں گا"(المسلم۔ باب:جہاد کا بیان۔ 4694)
آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے لباسِ تن سے لے کر جنگی ہتھیاروں تک، کا انحصار مشرکین کی امداد پر ہے۔ ہم اسے وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں حالانکہ یہ امتِ مسلمہ کی آپسی دوری اور بزدلی کی واضح مثال ہے۔ فلسطین کے معاملے پر ہمارے مسلم حکمران ایمان کے دوسرے درجے پر پہنچ چکے ہیں، جہاں ظلم اور باطل کو زبانی طور پر روکا جاتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں ایمان کا تیسرا درجہ نصیب ہو گا اور ہم کفار و مشرکین کے خوف سے انہیں بس دل میں برا جانیں گے۔ ہماری بلند آوازوں کو خاموشی کی زنجیریں پہنا دی جائیں گی۔
بارش کی امید اس وقت کی جاسکتی ہے جب مطلع ابر آلود ہو۔ آسمانی امداد بھی اس وقت نازل ہو گی جب فضائے بدر پیدا ہو گی۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ کبوتر یہ سوچ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے کہ شاید بلی اسے نہ دیکھ سکے گی اور پھر اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے۔ ہم اگر اسی طرح خاموشی سےمسلمان بھائیوں کی تباہی کا تماشہ دیکھتے رہے تو پھر وہ وقت قریب ہے جب ہمارا اپنا تماشہ تمام عالم دیکھے گا۔ اللہ تعالی نے اختیارات دئیے ہیں اور دین اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی ریاستوں کا سربراہ بنایا ہے تو مسلمانوں پر دنیا کے جس خطے میں بھی ظلم ہو آپ کے غوری، بابر اور فاتح 313، کا ہدف دشمنوں کے وہ علاقے ہوں۔ یہی ایمان کا اعلی ترین درجہ ہے۔