Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaigham Qadeer/
  4. Taleemi Dhanche

Taleemi Dhanche

تعلیمی ڈھانچے

آئی ٹی سے منسلک تقریبا تمام لوگوں میں میں نے ایک خامی جو دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سسٹیمیٹک لرننگ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ آپ ایسے کئی انٹرپرینور یا ویب گرو جو کہ اب موٹیویشنل سپیکر بننے کی طرف راغب ہیں ان کو دیکھ لیں گے جو کہ آئی ٹی کی وجہ سے کڑوڑ پتی بن گئے مگر اب یہ اس نظریے کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں کہ سکول اور یونیورسٹی ایجوکیشن کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ یہ دور سکول اور یونیورسٹی ایجوکیشن کا آخری دور ہے۔

جبکہ یہ بات کرنا بنیادی تعلیمی ڈھانچے کو نا جاننے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ تعلیمی ڈھانچے پہ بات کرنے سے پہلے ایک بات جو کہ جاننا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ انسان کڑوڑوں سال کے ارتقاء کا ایک پراڈکٹ ہے اور یہ پراڈکٹ ایک سماجی جانور کی صورت میں بنا۔ مطلب انسان کی بنیادی ضرورتوں میں صرف روٹی، کپڑا اور مکان نہیں ہے بلکہ ہر انسان ایک قسم کی سماجی زندگی مانگتا ہے۔ وہ زندگی جو کہ اس کے لئے کچھ دوست رکھتی ہو، ایک شخص ایسا جو اس سے پیار کرتا ہو جس سے وہ اپنی جنسی و جسمانی ضرورت پوری کر سکے اور ایک عدد فیملی۔

یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے دور بھاگنا نا ممکن ہے۔ اب ہم سکول لائف کی بات کرتے ہیں۔ سکول لائف کا بنیادی مقصد کبھی بھی بچے کو کتاب پڑھنا سکھانا نہیں ہے۔ یہ مملکت خداداد کی خرابی ہے کہ یہاں بہت سے سکولز اس مقصد کے تحت چلتے ہیں کہ بچے کو الف ب پڑھنا اور رٹنا سکھائی جائے۔ لیکن اندر کھاتے وہ بھی دیگر مقاصد پورا کر رہے ہوتے ہیں۔

سکول لائف کے میرے نزدیک درج ذیل بنیادی مقاصد ہیں ؛

1: بچے کو ایک سماجی زندگی فراہم کرنا

2: بچے کو معاشرے کے مطابق جینا سکھانا

3: بچے کو پڑھنا لکھنا سکھانا

یہ تین مقاصد ایسے ہیں کہ چاہے کوئی سکول چلانے والا ان کا انکار کرے مگر وہ اندر کھاتے بچے کو یہی چیزیں فراہم کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ زیادہ تر سکولز کا مقصد تیسرے پوائنٹ پہ حد سے زیادہ ہوتا ہے تو اس لئے ہمارے ہاں تربیت کے فیکٹر میں خاصی کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

سکول سماجی زندگی کیسے فراہم کرتے ہیں؟

سکول کا سب سے پہلا اور ابتدائی مقصد ایک بچے کو سماجی زندگی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ایک بچہ اپنی عمر کے بچوں کیساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھیلنا چاہتا ہے۔ وہ یہ بات آپ کو کبھی بھی بول کر نہیں بتائے گا۔ کیونکہ اس کو علم نہیں مگر اس کے اندر یہ بات ہارڈ وائر ہے اور اس کے Instincts میں یہ بات بیٹھی ہے کہ اس کو اپنے ہم عمر بچوں کا ساتھ چاہیے۔ ایسے میں نکتہ اٹھتا ہے کہ یہ مقصد تو گلی محلے میں بھی پورا ہو سکتا ہے۔

لیکن گلی محلے میں یہ مقصد مکمل طور پہ کبھی بھی پورا نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ وہاں بچے کو کبھی بھی ایک کوالٹی ماحول جو کہ بالکل اس کے عمر بچوں پہ مشتمل ہو نہیں فراہم کر سکتے۔ دوسرا آپ وہاں پہ بچے کو سوشل سیکیورٹی نہیں دے سکتے۔ ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ گلی محلے میں ایک آدھ بڑی عمر کا لڑکا ایک ضرور ہوتا ہے جس کا کوئی کام نہیں ہوتا سو وہ ان بچوں کو خراب کر سکتا ہے۔ سو گلی محلے کا آپشن رول آؤٹ ہو جاتا ہے۔

ایسے میں سکول ہی وہ جگہ ہے جہاں بچے کو اپنے ہم عمروں کے درمیان سوشلائزیشن کا موقعہ مل سکتا ہے اور وہ مکمل طور پہ ان بچوں کیساتھ اپنے بچپن کو انجوائے کر سکتا ہے۔ ہوم سکولنگ میں آپ کو جو مسئلہ در پیش آتا ہے وہ اسی سوشلائزیشن کا ہے کہ بچے ایک خاص وقت کے بعد چڑچڑے ہونا شروع ہو جاتے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ خراب ہو رہے ہیں۔ بلکہ اس کی وجہ ان کو کسی ایسے پارٹنر کی ضرورت ہے جو ان کا ہم عمر ہو اور ان کا سیکرٹ شئیرر بن کر چل سکے۔

اب جدید دور میں چونکہ سب کچھ تیز ہو چکا ہے اس لئے کچھ لرننگ بھی ضروری ہے۔ سو ایک تیر میں دو شکار کرنے کے لئے سکول ہی وہ جگہ ہے جہاں بچے کی سوشلائزیشن بھی ہو سکتی ہے اور تعلیم بھی ساتھ چل سکتی ہے۔

بچے کو معاشرے کےمطابق جینا سکھانا کیا ہے؟ سکول کیسے اس کے ذمہ دار ہیں؟

آپ یہ سوال کسی بھی سکول ٹیچر سے کریں تو ان کا پہلا جواب یہی ہو گا کہ بھئی سکول تو محض بچے کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے لئے چلایا جاتا ہے تربیت تو والدین کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ نکتہ آدھا ادھورا ہے۔ ایک بچے کی تربیت سب سے زیادہ وہیں ہو سکتی ہے جہاں وہ دن کا سب سے بڑا حصہ ایکٹو رہ کر گزارتا ہے اور یہ سکول ہی ہے۔ اب یہاں سکولز کی خامیاں آتی ہیں لیکن وہ اگلی قسطوں میں دیکھیں گے لیکن بچے کو معاشرے سے ہم آہنگ کرنا سکول کی ذمہ داری ہے۔ غلط سہی لیکن سکول غیر ارادی طور پہ بچے کو معاشرے سے ہم آہنگ ضرور کرتے ہیں۔

بچے کو سکھانا سکول کی آخری ذمہ داری ہے!

یہ وہ نکتہ ہے جس کو سکولز کے ناقد پہلا اور آخری نکتہ سمجھ کر ان پر تنقید کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ یہ سب سے آخری نکتہ ہو سکتا ہے کیونکہ لرننگ آنلائن بھی ہو سکتی ہے اور گھر میں بھی، لیکن سکول ہی بچے کو کیوں بھیجا جائے۔ اس سوال کا جواب ہے کہ سکول بھیجنا لرننگ کیساتھ ساتھ بچے کو معاشرے سے ہم آہنگ کرکے جینا سکھانا اور بچے کو ایک محفوظ سوشل انوائرمنٹ دینا ہے۔

اب سکول ان مقاصد کو کہیں نا کہیں اگنور کر رہے ہیں لیکن Involuntarily یا پھر نا چاہتے ہوئے بھی وہ بچے کو یہ تین چیزیں فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کے پاس ایک کاغذ ہے اور اس کاغذ کا مقصد کوئی جملہ لکھنا ہے۔ لیکن چونکہ آپ جملہ لکھنے کی آرٹ سے ناواقف ہیں تو ایسے میں آپ اس کاغذ پہ حروف تہجی رینڈملی لکھنا شروع کر دیتے ہیں تو اس لکھے گئے حروف تہجی کا چاہے غلط مطلب نکلے لیکن وہ ایک جملہ ضرور بنا دیتے ہیں۔

یہی کام سکولز کر رہے ہیں۔ اب ایک سکول کو کیسے ان تین مقاصد پہ کام کرنا چاہئے ہے اس بات کو جاننا بہت ضروری ہے۔

Check Also

Az Toronto Maktoob (4)

By Zafar Iqbal Wattoo