Tajarbat Aur Nazariyat
تجربات اور نظریات
نظریہ ایک ایسی چیز ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے اور اس کا بدلنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے اچھے اور برے تجربات ان نظریات کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ دنیا میں نفسانفسی پہلے سے بڑھ چکی ہے اور یہ قیامت کی سب سے بڑی نشانی ہے اور میں بھی اس نظریے پر یقین کرتا رہا تھا۔ لیکن اب زاویہ بدل چکا ہے۔ یہ تھوڑی لمبی کہانی ہے لیکن سنانی پڑے گی۔
پاکستان میں سرکاری اداروں میں مجھے کبھی اتنے کام نہیں پڑے تھے۔ تین چار ضروری کاموں کے علاوہ زندگی میں کبھی سرکاری دفتر جانا نہیں ہوا لیکن انہوں نے میری زندگی کا ایک نظریہ سیٹ کر دیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ تمام سرکاری ملازم کرپٹ ہوتے ہیں، انہیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہوتی اور یہ اپنے کام سے مخلص نہیں ہوتے ہیں اور اس نظریے کی بنا پر قیامت کے نزدیک ہونے والے نظریے پر یقین راسخ ہوگیا تھا۔
میرا پہلا تجربہ گوجرانوالہ بورڈ کے ملازمین سے ہوا۔ یہ ملازم مجھے دنیا کے کرپٹ ترین لگے لیکن ابھی دنیا دیکھنا باقی تھی سو، ایک رزلٹ کارڈ نکلوانا تھا اور سو ڈیڑھ سو کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد بھی موبائل پر ویڈیو گیم کھیلتے ملازم نے کہہ دیا کہ آپ کل آ کر اپنا رزلٹ کارڈ لے جائیں، حالانکہ اس کا کام محض پرنٹ نکالنا تھا۔ وہیں اس کے دوسرے ساتھی نے کہا کہ اگر آپ کو آج چاہیے تو اتنے ہزار کھانے پانی کے لئے دیں تو کام ہو جائے گا۔ یہ سن کر جب دماغ گھوما اور ان کے سپروائزر سے بات کی اور اس سے ریٹ پوچھا تو پھر جی سر جی سر کرکے وہی پرنٹ اسی وقت نکال کر اس نے دے دیا جو کہ "سرکاری وقت" لینے کی صورت میں ایک دن میں پرنٹ ہونا تھا۔
دوسرا تجربہ واپڈا سے ہوا، اس تجربے کے بعد بھی یہی لگا کہ یہ دنیا کا کرپٹ ترین محکمہ ہے۔ لیکن ابھی پکچر باقی تھی۔ ہمارے محلے کا ٹرانسفارمر جل گیا تھا۔ اب محلے داروں نے مل کر لائن مین کو بلایا تو انہوں نے کہا کہ یہ ٹرانسفارمر سرکاری کام کی وجہ سے ہفتے بعد لگے گا۔ وہیں پر اگر آپ فی گھرانہ دو سو روپے دیں تو ابھی لگ سکتا ہے۔ بیچارے لوگوں نے ان کو رشوت دی اور آدھے گھنٹے میں نیا ٹرانسفارمر لگ گیا۔ اسی طرح جب جب بجلی کا ہلکا سا مسئلہ ہوتا تھا تو یہ ایسے ہی ہر شخص سے رشوت لیکر ہی حل کرتے تھے۔
پھر تیسرا تجربہ ہوا۔ یہ لینڈ ریکارڈ کا تھا۔ وہاں پر آپ کے کاغذات میں کوئی نا کوئی خرابی نکال کر ریجیکٹ کرنا ان کی عادت تھی سو میں نے اپنی نظروں کے سامنے لوگوں کو ہر ملازم کو ہر قدم پر ہزاروں روپے رشوت دیتے دیکھا۔ اتنی کرپشن زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی جتنی وہاں دیکھی۔ ایک ایک دن کی کمائی لاکھوں میں تھی۔
چوتھا تجربہ پاسپورٹ آفس کا تھا جہاں پر فی بندہ دو ہزار رشوت دیکر آپ لائن میں لگنے کی بجائے منٹوں میں اپنا کام نکلوا سکتے ہیں اور میرے دیکھتے دیکھتے کم سے کم دس سے بیس لوگوں نے ایسے کیا اور ان سرکاری ملازموں نے فقط ایک گھنٹے میں بیس پچیس ہزار کی دیہاڑی لگا لی تھی۔ یہی حال منسٹری آف فارن افئیرز لاہور کا تھا۔
ان تجربات کے بعد میرا نظریہ بن گیا تھا کہ سرکاری ملازم ہوتے ہی کرپٹ ہیں اور انہیں نا بات کرنے کی تمیز ہوتی ہے نا سننے کی، اس سب کی وجہ قیامت کا نزدیک آنا ہے اور پاکستان کی حد تک یہ بات بالکل درست تھی۔
وہیں جس دن پاکستان سے باہر نکلا تو پتا چلا کہ سرکاری ملازم تو ایسے نہیں ہوتے۔ سرکاری انشورنس دفتر جانا پڑا۔ لمبی لائن تھی لیکن ہر کوئی تحمل سے باری کا انتظار کر رہا تھا۔ میری باری آئی تو پتا چلا کہ کاؤنٹر والی عورت کو انگریزی نہیں آتی۔ مقامی زبان مجھے نہیں آتی تھی سو اس نے کہا آپ انتظار کریں اسی وقت اپنی کولیگ کو ساتھ والے بینچ سے اٹھا کر لائی۔ میں پاکستان والے سرکاری خوف میں جلدی جلدی میں کام نکلوانا چاہتا تھا تو اس نے کہا سر آپ ریلیکس کریں۔
میں نے کہا مجھے لگ رہا ہے کہ میں زیادہ وقت ضائع کر رہا ہوں تو وہ کہنے لگی کہ میرا وقت ہے ہی آپ کی خدمت کے لئے، سو آپ مجھے اپنا پورا ایشو بتائیں میں حل کر دونگی۔ میرے پاس فوٹو کاپی نہیں تھی تو اس نے پاسپورٹ پکڑا اور خود کاپی کرکے کہنے لگی یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں میرا فرض ہے۔ اس نے میرا پورا کام کیا اور آخر میں میرا ہی شکریہ ادا کیا کہ آپ نے وقت نکالا۔ یہاں میرے کام میں ایک مسئلہ آگیا کہ میرے قدیر کو سرکاری ڈاکیومینٹس میں اودیر لکھا گیا تھا۔ اس لڑکی نے کہا کہ آپ آرام سے ہوم افئیرز کے دفتر جائیں اور اگلے دن دوبارہ آ جائیں اور میری طرف سے معذرت کہ آپ کو دوبارہ چکر لگانا پڑے گا۔
پھر ہوم افئیرز جانے کا اتفاق ہوا۔ بہت سنا تھا کہ ہوم افئیرز والے برے ہوتے ہیں۔ سو دماغ میں ہلکا ہلکا پاکستانی ٹراما بیٹھا ہوا تھا۔ ہوم افئیرز بولیں تو نادرا کا دفتر، پاکستان میں نادرا جانے پر وہ آپ کو مختلف چکر لگوانا پسند کرتے ہیں۔ پھر ذلیل کرکے کام کرتے ہیں۔ خاص کر نام کی غلطی کی صورت میں اٹیسٹیشن اور حلف ناموں میں ڈال دیا جاتا ہے سو میرے دل میں یہی خیال تھا کہ آج کام نا ہوا۔
ٹوکن لیا اور ٹوکن لے کر غلط آفس چلا گیا۔ وہ میڈم کسی کسٹمر کو ڈیل کرکے فری ہوئی تھی۔ مجھ سے اس نے آنے کا مقصد پوچھا تو پھر کہنے لگی دوسرے کاؤنٹر پر کام ہوگا۔ لیکن تمہیں میں چھوڑ آتی ہوں۔ وہ اپنے دفتر سے باہر نکلی مجھے نیا ٹوکن لیکر دیا اور پھر کافی دور نئے کاؤنٹر پر چھوڑ کر گئی کہ یہاں کام ہوگا۔ وہاں ایک بوڑھی خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔ اب اسے انگلش نہیں آتی تھی اور مجھے پولش اور وہاں پر موبائل کا استعمال منع تھا۔ سو میں نے اسے اشاروں میں سمجھایا کہ قدیر کا کیو نہیں او لکھ دیا ہے۔ تو وہ کہنے لگی ہماری زبان میں او ہی ہے تمہارے پاسپورٹ میں بھی او ہے۔ اب اشاروں میں ہم بحث کر رہے تھے وہ او کہہ رہی تھی میں کیو، آخر میں تنگ آکر کہنے لگی میں تبدیل کر دیتی ہوں سو اس نے تبدیل کر دیا اور میرا کام ہوگیا۔
اس کے بعد مجھے دیگر چھوٹے موٹے کاموں کے لئے یہاں کے مختلف اداروں میں جانے کا اتفاق ہوا ہر جگہ میں اپنے پاکستانی ٹراما کی وجہ سے بات بتانے میں جلدی کرنے کی کوشش کرتا تھا اور وہ مجھ سے مزید تفصیل پوچھتے تھے سو وقت کے ساتھ ساتھ یہ ٹراما بھی دھل گیا اور پھر میرا نظریہ بھی بدل کر رہ گیا۔
نظریہ کچھ یوں بدلا کہ پاکستان میں یہ بات ہر کوئی کہتا ہے کہ دنیا قیامت کی طرف جا رہی ہے کیونکہ ہر طرف نفسا نفسی ہے ہر شخص آپ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے اور سکون نہیں ہے۔
مگر مسئلہ سمجھ آگیا۔ اگر آپ کو آپ کے اپنے ہی ہر وقت لوٹنے کی کوشش کرتے رہیں گے تو یہ آپ کے لئے قیامت سے کم نہیں ہے اور آپ اس کو ہی قیامت کے قریب آنے کی نشانی سمجھیں گے۔
وہیں پر دنیا بے سکون ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ سارا دن اپنے ہی لوگوں کی حق تلفی کریں گے تو رات کو آپ کو سکون کہاں سے ملے گا؟ ہمارے وہ علما جو یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں نفسا نفسی ہے اور سکون نہیں وہ خود اپنے ظالم کے سامنے چپ ہو جاتے رہیں گے تو انہیں سکون نہیں ملے گا۔
وہیں پر دنیا میں میرا تجربہ بہت مختلف رہا ہے۔ انسان اپنے لوگوں میں سب سے زیادہ محفوظ ہوتا ہے لیکن ہم اپنوں میں رہ کر سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ یہ قیامت نہیں تو کیا ہے؟ ایسے میں سکون کہاں سے ہوگا؟ یونہی لگے گا کہ نفسا نفسی ہے اور قیامت سر پر کھڑی ہے۔
لیکن تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ دنیا میں ایک سو پچانوے ملک ہیں ان میں سے فقط اٹھارہ ممالک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، میں کسی نا کسی طرح کی خانہ جنگی یا جنگ چل رہی ہے۔ ان کو نکال کر باقی کی ساری دنیا پر امن ہے اور وہاں لوگ اپنوں کا خیال رکھنا پسند کرتے ہیں۔ کوئی کسی کو لوٹنے کی کوشش نہیں کرتا، دھوکہ کم سے کم ہے اور کمیونٹی میں احساس ہے۔
ان اٹھارہ سے بیس ممالک کے لوگوں کا ماننا ہے کہ قیامت سر پر کھڑی ہے۔ دنیا ختم ہونے والی ہے۔ جبکہ باقی کے ایک سو ساٹھ سے اوپر ممالک کے لوگ ایسا نہیں سوچتے ہیں وہ اپنی زندگیوں کو انجوائے کر رہے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں ایک عجیب سا اطمینان ہے۔ وہ لائن میں ہوں تو جلدی نہیں، وہ سرکاری ملازم ہیں تو انہیں زیادہ پیسہ گھیرنے کی طلب نہیں، وہ روڈ پر ہیں تو ہارن بجا کر اگلے کا سکون نہیں تباہ کرتے بلکہ اطمینان سے سگنل پر گاڑی روکے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ان لوگوں کی زندگیوں میں عجیب اطمینان اور ٹھہراؤ ہے۔ سکون کا پیمانہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن اطمینان اور ٹھہراؤ مستقل ہے۔ یہ لوگ اپنی زندگیوں میں ٹھہراؤ کے ساتھ جی رہے ہیں اور انہیں کوئی جلدی نہیں ہے اور یہ بات میرے لئے کافی حیران کن تھی۔ ان کے ہاں نفسا نفسی نہیں بلکہ احساس ہے۔ یہ کمیونٹی میں ایک دوسرے کا خیال رکھنا پسند کرتے ہیں۔ احساس کرتے ہیں اور حق تلفی نہیں کرتے ہیں۔
اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے لوگ اس بات پر کبھی یقین نہیں کریں گے کہ دنیا کے ایک سو ساٹھ ممالک کے لوگوں کی بڑی تعداد اپنے لوگوں سے مخلص ہے۔ ہاں دنیا میں دھوکہ ہے لیکن بہت کم ہے۔ اپنوں میں یہ لوگ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ کرپشن بہت کم ہے اور سب سے بڑی بات ان کی زندگیوں میں اطمینان اور ٹھہراؤ ہے۔ دنیا عارضی ہے یہ بات سچ ہے لیکن وہ اس بات کو بہانہ بنا کر ہر کسی کی زندگی جہنم نہیں بناتے ہیں۔
انہیں یہ خوف نہیں کہ قیامت آ رہی ہے اس لئے اپنی چوری کو اس دلیل پر درست سمجھو بلکہ یہ چوری کو چوری ہی سمجھ کر آگے چلتے ہیں اور ان ممالک میں اس وقت پینتالیس سے پچاس کے قریب مسلمان ممالک بھی ہیں۔ جہاں یہ والا اطمینان اور ٹھہراؤ ہے۔
ان لوگوں کی زندگیوں میں موجود اس اطمینان اور ٹھہراؤ نے میرا جینے کا ایک اور نظریہ بدل دیا ہے اور وہ نظریہ یہ ہے کہ اگر آپ کو آپ کے اپنے ہی لوٹ رہے ہیں تو وہ قیامت ہے وہیں پر اگر آپ اپنوں میں ہی محفوظ ہیں تو یہ تحفظ آپ کو آپ کی زندگی میں ایک اطمینان اور ٹھہراؤ دیتا ہے جو کہ آپ کی زندگی پرسکون بنا دیتا ہے۔