Smog
سموگ
سنہ دو ہزار بارہ تک چین کے سب بڑے شہر آلودہ ترین ہو چکے تھے ہر شہر میں سموگ کا ڈیرہ تھا۔ سموگ جہاں ہوا کی آلودگی کی نشانی ہے وہیں پر اس کی وجہ سے عام شہریوں کی زندگی کی اوسط بھی کم ہو جاتی ہے۔
مطلب کہ سموگ ایک زہر سے کم نہیں ہے جو کہ آہستہ آہستہ آپ کی زندگی میں سے سارا لطف نکال کر آپ کو زہر آلود موت کی طرف جلدی دھکیلتا ہے۔
ایسے میں پریشان چین نے اس سموگ سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔
دوسری طرف یورپ اور امریکہ بھی ایک بار سموگ کا سامنا کر چکے تھے اور اس سے لڑنے کے دوران انہیں کئی بار اقتصادی مندے کا سامنا کرنا پڑا تھا وہیں چین جیسی ترقی کرتی معیشت کے لئے یہ بھی مسئلہ بن سکتا تھا۔ لیکن چین نے فقط سات سالوں میں سموگ کو ہرا کرنا صرف دنیا کو حیران کر دیا بلکہ بتایا کہ اقتصادی مندے کے بغیر بھی آپ سموگ کو ہرا سکتے ہیں۔
اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے چین نے اپنے کوئلے کے پلانٹ بند کئے۔ اس کے بعد کان کنی کے بعد آئرن اور اسٹیل کے کارخانے جو شہروں کے اندر تھے انہیں بند کیا اور شہروں میں کاروں کی تعداد کو کم کیا۔ چین نے ہر شہر میں کاروں کی تعداد پر پابندی لگا دی تھی کہ اس سے زیادہ ایندھن سے چلنے والی اور خصوصا پرانی گاڑیاں چلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
پھر چین نے ملک کے بارہ صوبوں میں سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ سے پینتیس ارب درخت لگائے۔
ان تمام اقدامات کے بعد چین نے فقط سات سالوں میں بیجینگ جیسے بڑے شہر میں پینتیس فیصد اور اوسطاََ بیس سے پچیس فیصد آلودگی کو کم کر لیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سروے سے پتا چلا کہ جہاں آلودگی سے لاکھوں لوگ مر رہے تھے وہیں پر اب اوسط عمر میں دو سال کا اضافہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
لاہور میں کیا کرنا ہوگا؟ سب سے پہلے لاہور میں موجود انڈسٹری کو یہاں سے باہر منتقل کرنا ہوگا۔ اس کے لئے موزوں جگہ بلوچستان یا جنوبی پنجاب کے غیر آباد علاقوں میں نئے صنعتی شہر ہونگے جنہیں بنانا پڑے گا۔
دوسرا سب سے اہم قدم لاہور میں موجود تمام رکشوں اور ویگنوں پر پابندی لگانی پڑے گی۔ اس وقت لاہور کی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ کارخانوں کے بعد ٹریفک کا ہے۔ رکشوں اور ویگنوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ دس سال سے پرانی گاڑیوں پہ بغیر فٹنس سرٹیفیکیٹ شہر میں داخلے پر پابندی عائد کرنا ہوگی۔
تیسرا اور سب سے اہم قدم شہر میں نئے درخت لگانا ہوگا۔ عموماََ عالمی اصول یہ ہے کہ آپ کو اپنے گھر کی کھڑکی سے باہر کم سے کم بیس درخت نظر آئیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ صاف فضا میں جی رہے ہیں۔ ایسے میں لاہور میں نئے جنگلات لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں درخت تو کیا باہر دیکھیں تو ایک گملہ تک نہیں نظر آتا ہے۔
چوتھا اور آخری قدم ساہیوال میں موجود کول پلانٹ کو بند کرنا ہوگا۔ آپ لاہور کی فضا کا ڈاٹا چیک کریں جب سے ساہیوال کول پلانٹ لگا ہے لاہور میں سموگ کی شرح دو گنا سے بھی بڑھ چکی ہے۔
ان تمام اقدامات پر پیسہ اور پلاننگ لگتی ہے۔ پیسہ تو حکومت کہیں سے مانگ کر پورا کر سکتی ہے لیکن پلاننگ کے لئے حکومت کو خود سمیت ہر سرکاری افسر کو ایمانداری سے کام کرنے دینا ہوگا جو کہ بظاہر باقی اقدامات پر عمل کرنے سے بھی زیادہ مشکل کام دکھائی دے رہا ہے۔
اگر یہ سب کر لیا جائے تو پاکستان چین سے بھی زیادہ تیزی سے سموگ ختم کر سکتا ہے، لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔