Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Self Reflection

Self Reflection

سیلف ریفلیکشن

کسی بھی شخص کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور قابل ترس لوگ سیلف ریفلیکشن کی کمی والے اور اپنی اولاد پہ ہر وقت چیخنے چلانے والے لوگ ہو سکتے ہیں۔ سلیف ریفلیکشن کی کمی والے لوگوں کے نزدیک ان کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا کوئی بھی کام ان کی وجہ سے نہیں خراب ہوا بلکہ ہمیشہ کسی اور کی وجہ سے ان کا کام خراب ہوتا ہے۔

ہمیں ایسے لوگ ہر جگہ مل جاتے ہیں کچھ کو ان کے ماں باپ کی شکل میں، جو ان کو یہ کوسنے سنا سنا کر ذہنی مریض بنا دیتے ہیں کہ ان کی زندگی میں مشکلات کی وجہ آپ ہیں، آپ کے پیدا ہونے کے بعد ہی سب کچھ خراب ہوا، کچھ کو ایسے لوگ بہن بھائیوں اور دوستوں کی شکل میں مل جاتے ہیں جو کہ کوئی بھی غلطی خود تسلیم کرنے کی بجائے آپ پر ڈال دیں گے اور یوں ایکٹ کریں گے جیسے ان کا اس کام کے بگڑنے میں کوئی کردار ہی نہیں تھا۔

ایسے لوگ حد سے زیادہ ٹرسٹ ایشوز کا شکار رہتے ہیں اور ان میں برداشت کی قوت نا ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اگر آپ ان سے اس مسئلہ پر بات کریں گے تو یہ لوگ آپ سے کنارہ کشی کر لیں گے اور عموماََ ایسے لوگوں میں گھر کر رہنا پسند کرتے ہیں جو کہ ہر وقت ان کی غلطی کو اپنی غلطی مان کر جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے اس بہیوئر کا ناطہ کہیں نا کہیں سے بچپن میں ہونے والے تشدد اور برے روئیے سے جا ملتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اگلے کا جینا حرام کرکے اس کی زندگی سے سکون نکال لیتے ہیں۔

ابھی ایک تھریڈ دیکھ رہا تھا جہاں کچھ لوگ ایسے لوگوں سے پڑنے والے واسطے کو ڈسکس کر رہے تھے تو مجھے پرسنالٹی کا یہ خاصہ یاد آگیا کہ ایسے لوگوں سے ہمیں زندگی میں اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور پرسنالٹی کا خاصہ جو وہاں ڈسکس ہوا اور مجھے سب سے زیادہ ناپسندیدہ لگتا ہے وہ ماں باپ کا بچوں پہ اونچی آواز میں بات کرنا ہے۔ یہ بہیوئر ہر دوسرے گھر کی داستان ہے اور اس بہیوئر کی کڑیاں اوپر والے بہیوئر سے جا ملتی ہیں۔

ایسے لوگ بعد میں جب اولاد خود مختار ہو کر ان سے دور چلی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ وہ نافرمان ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اولاد نافرمان نہیں ہوتی بلکہ وہ اس حد تک ان کے غلط بہیوئر کو برداشت کر چکی ہوتی ہے جو ان کی لمٹ ہوتی ہے اس کے بعد چھوڑنا بن جاتا ہے۔ گو معاشرہ ایسے بچوں کو نافرمان اولاد اور پتا نہیں کیا کیا کہتا ہے مگر یہ بچے بہت حد تک درست ہوتے ہیں اور منفی رویے رکھنے کی وجہ ان کے پاس ان کے والدین کے بچپن سے لیکر بڑے ہونے تک کے برتاؤ کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔

ایک مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ اگر آپ کی زندگی میں ایسے لوگ ہیں جن کا بہیوئر اتنا برا ہے تو ان کو اوپنلی سمجھانے کی کوشش کریں اور ٹھیک کریں اگر وہ ٹھیک نہیں ہو سکتے تو ان سے دوری اختیار کریں یہی بہتر ہے، کیونکہ کسی کا پرسنالٹی ڈس آرڈر آپ کی زندگی کا سکون تباہ کرنے کی وجہ نہیں بننا چاہیے۔ ہاں اگر والدین ہیں اور بوڑھے ہو چکے ہیں تو ان کو تنہا مت چھوڑیں لیکن ان سے اتنا فاصلہ ضرور رکھیں کہ کم از کم ان کا منفی رویہ آپ کے بچوں کی نفسیاتی صحت پہ ظلم کی وجہ نا بن سکے۔

جہاں پہ یہ تھریڈ پڑھا وہ کافی دلخراش تجربات والے کمنٹس سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے ایک بات یہ بھی سیکھنے کو ملی کہ اولاد ہمیشہ نافرمان نہیں ہوتی والدین کے منفی رویے اس کو ایسا بننے پہ مجبور کر دیتے ہیں اور ایسے ہی دوست ٹاکسک نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کے رویے ان کو بدلنے پہ مجبور کر دیتے ہیں۔

Check Also

Salman Ahmed Ka Junoon Bhi Utaar Diya

By Syed Mehdi Bukhari