Science Haqeeqat Ko Janne Ka Naam Hai
سائنس حقیقت کو جاننے کا نام ہے
جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ اپنے دلائل سے سائنس کی تجربات سے ثابت شدہ کوئی بات غلط کر سکتا ہے اور آپ کو اپنے ساتھ بحث کے لئے بلائے اس کیساتھ بحث کرنے میں وقت ضائع کرنے کی حماقت کبھی مت کریں کیونکہ وہ شخص سائنس کے بنیادی پراسس سے ہی آگاہ نہیں ہے۔ سائنس میں اگر ایک چیز مشاہدے سے بڑھ کر تجربے سے ثابت ہو چکی ہے تو اس کے رد میں صرف تجربات مانے جا سکتے ہیں اور وہ بھی وہ تجربات جن میں پہلے والے تجربات کو غلط ثابت کیا جا چکا ہو۔ باقی سب اس شخص کی ذاتی رائے ہوگی۔
جیسے اس وقت ثابت ہو چکا ہے کہ زمین بیضوی ہے اب کوئی شخص جتنا مرضی دعویٰ کرے اور دلائل دے سائنس ان دلائل کو سنے بغیر ردی کی ٹوکری میں پھینکتی ہے۔
اسی طرح ارتقاء ہے۔ ہر مہینے درجنوں ریسرچ پیپر اس موضوع پہ شائع ہوتے ہیں اور ان میں تجرباتی طور پہ سائنسدان نئی سے نئی کڑیاں ڈھونڈ کر ارتقاء کو ثابت کر رہے ہیں۔ اب ایسے میں کوئی یہ کہے کہ آپ اس سے بحث کریں کیونکہ وہ "دلائل" سے آپ کو اور آپ کے ارتقاء کو غلط ثابت کر سکتا ہے تو ایسے شخص سے کنارہ کشی بہت ضروری ہے۔
کیونکہ ایسے شخص کی سائنٹفک کریڈیبلٹی صفر ہے جس کے تحت وہ بات کر رہا ہے۔ اگر مجھے اس موضوع پہ بات کرنی ہے کہ ارتقاء غلط ہے (پورا پراسس) تو سب سے پہلے مجھے اپنی ریسرچ سے کہیں نہ کہیں ایک آدھ ایسا سائنسی میکنزم جس سے ارتقاء ثابت ہو سکتا ہے اسے غلط ثابت کرنا ہوگا۔ پھر جا کر یہ دعویٰ کرنا ہوگا کہ ہاں میں اب ارتقاء کو غلط ثابت کر سکتا ہوں اور میرے پاس میرے فلاں تجربے کے ثبوت ہیں۔
مگر پاکستان میں یا دنیا کے بہت سے ممالک میں فلیٹ ارتھرز کی طرح ارتقاء سے خار کھانے والے لوگ ان دلائل پہ بحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کو آج سے بیس سے تیس سال پہلے غلط ثابت کیا جا چکا ہے۔ یا پھر یہ کسی نئے یورپئین کریشنسٹ کے دلائل سن کر دعویٰ تو کر بیٹھتے ہیں کہ میں ارتقاء کو اس طرح سے غلط ثابت کر سکتا ہوں مگر ایسے لوگ ان دلائل کا سائنسی و تجرباتی رد نہیں سن چکے ہوتے۔
چونکہ موسٹلی ایسے لوگوں کا تعلق نان سائنٹفک بیک گراؤنڈ سے ہوتا ہے اس لئے یہ مذہب کارڈ کھیل کر اگلے کو نیچا دکھانے کی خاطر بحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے میں وہ شخص جسے سائنٹفک پراسس کا مکمل علم ہی نہیں اور اس کے باوجود وہ بحث کرنے کی کوشش کرتا ہو تو اس سے بحث کی بجائے ہار ماننا بہتر ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے سائنس تو غلط ثابت نہیں ہوگی مگر آپ کی انرجی بچ جائے گی جسے آپ بہتر جگہ استعمال کر سکتے ہیں۔
اس لئے ہر وہ شخص جو آپ سے یہ کہے کہ وہ اپنے دلائل سے سائنس کا رد کر سکتا ہے اس سے بچیں کیونکہ جس شخص کا اپنا بیک گراؤنڈ ہی سائنٹفک نہیں اور جسے سائنسی پروسیجر کا علم ہی نہیں اس سے بحث وقت کا ضیاع اور اس شخص کے نفس کی تسکین کرنا ہے۔
بس ایک بات یاد رکھیں سائنس میں ایک بات جو تجربے سے ثابت ہو چکی ہے اس کے رد میں دلائل جتنے مرضی مضبوط کر لئے جائیں اور چاہے کوپرنیکس کی طرح اس کو اپنی کتاب کا نام بدلنے پہ مجبور کیا جائے یا گلیلیو کی طرح اس پہ جبر کیا جائے اور موت کے منہ میں اتارا جائے اس کی ثابت کی گئی حقیقت غلط ثابت نہیں ہو سکتی۔
سائنس زبانی کلامی دلائل پہ تجربات کو مقدم رکھتی ہے۔ اگر کسی کے پاس تجرباتی رد نہیں ہے تو وہ سائنس کو اپنی نفسیاتی تسکین کے لئے تو رد کر سکتا ہے مگر سائنس ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے کیونکہ سائنس حقیقت کو جاننے کا نام ہے اور حقیقت دلائل کی محتاج نہیں ہوتی ہے۔