Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Palmaris Longus

Palmaris Longus

پالمیرس لونگس

آپ کی کلائی میں موجود اس پٹھے کا نام پالمیرس لونگس ہے۔ یہ پٹھا اس وقت 14% آبادی تک آبادی اس کو کھو چکی ہے اور اس کا تناسب افریقی آبادی میں سب سے زیادہ اور ایشیائی اور یورپی آبادیوں میں ان سے کم ہے۔ اب آبادی کا اتنا بڑا حصہ اس پٹھے کو کیوں کھو چکا ہے؟ اس سوال کا جواب ارتقائی سائنسدان یہ دیتے ہیں کہ انسانوں نے اس پٹھے کو ایک مشترکہ جد سے ارتقاء کے تحت پایا مگر چونکہ انسانوں میں اس کا کوئی کام نہیں لہٰذا اس کو انسانوں نے آہستہ آہستہ کھو دینا شروع کر دیا۔

وہیں، کچھ جاندار جیسا کہ اورینگٹان (بندروں کی ایک قسم) جو کہ ہمارے ساتھ ایک مشترکہ جد سے ارتقاء پذیر ہوئی وہ ابھی بھی اس پٹھے کو رکھتی ہے وہیں ہمارے قریبی ارتقائی رشتہ دار جیسا کہ چمپینزی اور گوریلا بھی ہماری طرح اس کو کھو چکے ہیں۔ ارتقاء کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ مشترکہ جد سے ارتقاء ہونے کے نتیجے میں ہم بہت سے ایسے خصائص و اعضاء بھی پا لیتے ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا مگر اجداد میں وہی خصائص و اعضاء بہت کارآمد ہوتے ہیں۔ سو جدید جاندار آہستہ آہستہ ان کو کھو دینا شروع کر دیتے ہیں۔

ایسے ہی ہم میں ہوا، جب فطرت نے ہم میں انگوٹھے کے پٹھوں کا ارتقاء کروانا شروع کیا تو اس کے نتیجے میں پالمیرس لونگس کا کردار ہماری حرکات میں کم سے کم ہوگیا اور اس کے نتیجے میں یہ پٹھا ایک غیر کارآمد عضو کے طور پہ رہ گیا۔ چونکہ اس کا نہ کوئی مثبت کام ہے نہ ہی منفی اس لئے یہ بغیر کسی ارتقائی پریشر میں بہت سے جانداروں میں سے غائب ہوگیا تو وہیں بہتوں میں ابھی بھی موجود ہے۔

ہوسکتا ہے آپ میں بھی ابھی تک موجود ہو، ابھی اپنے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی (چیچی) کو جوڑیں اور اس مزے کے ارتقائی عضو کو دیکھ کر اسکی تصدیق کریں۔ یہ پٹھا عورتوں میں زیادہ موجود ہے جبکہ مرد زیادہ تر اس کو کھو چکے ہیں۔ اس پٹھے کی غیر موجودگی کا کوئی نقصان نہیں محض اس بات کے کہ اس کی غیر موجودگی میں ہماری چیچی اور اسکے ساتھ والی انگلی کی چٹکی کاٹنے کی صلاحیت یا پھر چیزیں پکڑنے کی صلاحیت کم پڑ جاتی ہے۔ جس کا کوئی نقصان نہیں ہے۔

سو انسانوں میں سے بہت سے انسان ارتقاء کے تحت اس کو کھو رہے ہیں تو وہیں بہتوں کے پاس ابھی بھی یہ ارتقائی غیر کارآمد عضو موجود ہے۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (1)

By Wusat Ullah Khan