Pakistani Startups
پاکستانی سٹارٹ اپس
آج مختلف انڈین سٹارٹ اپس کو دیکھ رہا تھا۔ بھارت میں سب سے کم عمر ارب پتی لوگوں میں ایڈ ٹیک یا پھر ایجوکیشن انڈسٹری سے وابستہ لوگ شامل ہیں اس کے ساتھ فن ٹیک یا پھر ڈیجیٹل فنانس والے آتے ہیں۔
یہ لوگ بھارت میں فقط چھوٹے سے مسائل کے حل سوچنے کے بعد ارب پتی بن گئے اور چونکہ یہاں پہ نوجوان آبادی کا تناسب کافی زیادہ ہے اس لئے ان کے بزنس کی گروتھ بہت تیز رہی تھی۔
پاکستان میں سٹارٹ اپ کلچر کبھی بن ہی نہیں پایا ہے۔ خدا خدا کرکے ہمارا دراز برینڈ بنا تھا مگر وہ بھی علی بابا کو فروخت کر دیا گیا اور یوں اب وہ بھی پاکستانی کی بجائے چینی برینڈ ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں دو سال پہلے تک شپمنٹ سے منسلک بزنس جیسا کہ فوڈ ڈیلیوری، گروسری شاپنگ اور ڈیجیٹل رائیڈ جیسے بزنس اوپر آ رہے تھے مگر اب پٹرول کی وجہ سے ڈیلیوری کی قیمت بڑھنے کے سبب سب سے پہلے ائیر لفٹ نامی برینڈ دیوالیہ ہوا اور اس کے بعد کچھ ایسے ہی سٹارٹ اپ دیوالیہ ہوئے اور اب وہ منظر نامے سے غائب ہو چکے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں بڑے سٹارٹ اپس میں فوڈ پانڈا، پرائس اوے یا پھر دوائی ڈاٹ کام جیسے سٹارٹ اپ بچے ہوئے ہیں لیکن ان کے منافع کے لئے بھی سستے پٹرول کی ضرورت ہے۔
گو انڈیا اتنی بڑی مارکیٹ ہے لیکن وہاں لوگ پیسہ خرچ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کا زمیٹو کا برینڈ فقط سو سے دو سو ملین ڈالر کی مالیت کا ہے جبکہ پاکستانی فوڈ پانڈا ان حالات میں بھی چالیس سے پچاس ملین ڈالر کی ویلیوایشن رکھتا ہے۔
یورپئین مارکیٹ کو دیکھنے کے بعد مجھے جس چیز کا سب سے بری طرح سے احساس ہوا وہ یہاں ان ممالک کے اپنے لوکل سٹارٹ اپس کا ہونا ہے۔ پولینڈ، بیلجئیم اور جرمنی یہ تین ممالک بالکل ساتھ ساتھ ہیں مگر ان تینوں ممالک میں گروسری سے لیکر پیٹرول ڈلوانے تک ہر ملک میں الگ برینڈ موجود ہیں۔
ان کے پاس ایک سوئی سے لیکر ٹماٹر مرچ تک ہر چیز کا اپنا لوکل برینڈ موجود ہے گو ان ممالک میں ایلیٹ ہماری ایلیٹ کی طرح غیرملکی برینڈ پہ جانا پسند کرتی ہے لیکن یہاں ایک چھوٹے سے چھوٹے پراڈکٹ کو بھی بہت اچھے اور منفرد طریقے سے کمرشلائز کرکے بیچا جاتا ہے اور زیادہ تر آبادی لوکل سستے برینڈز پہ جانا پسند کرتی ہے۔
پاکستان اکنامک ڈائنامکس کے حساب سے امریکہ سے ملتا جلتا ایک ملک ہے۔ یہاں کے لوگ غریب ہو کر بھی پیسہ لگانے سے نہیں گھبراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ یہاں پہ لوگوں کو شادیوں سے لے کر شام کے کھابوں تک ہر جگہ بے تحاشہ پیسہ لگاتے ہوئے دیکھیں گے۔
مگر ٹیکس نیٹ کے پراپر نفاذ اور مستحکم پالیسیز کے نا ہونے کی وجہ سے یہاں پہ لوگ اپنے بزنس کو ٹھیک طرح سے بڑھانے کی طرف نہیں جاتے ہیں اور اسی لئے آپ یہاں برینڈ بہت کم دیکھیں گے۔ کیونکہ لوگوں کو اس بات پر یقین ہے کہ ایک دوکان رکھ کر وہ ٹیکس نہیں دے رہے تو اس دوکان کو بڑا کرکے وہ ٹیکس کیوں بھریں؟ اسی طرح لوگوں میں یہ سوچ بھی کافی حد تک موجود ہے کہ اگر وہ ایک چیز ملاوٹ کرکے اچھے نفع کے ساتھ بیچ رہے ہیں تو اس چیز پر محنت کیوں کریں؟
یہی وجہ ہے کہ یہاں سٹارٹ اپ کلچر سے لے کر برینڈ کلچر تک سب پنپ نہیں رہا ہے لیکن تین سو ملین لوگوں کی مارکیٹ میں بڑے سٹارٹ اپس کا نا ہونا ایک مایوسی کی خبر اور سرمایہ کار کی مارکیٹ میں دلچسپی نا لینے کی نشانی ہے۔
اتنی بڑی مارکیٹ کو فقط گورمے، فوجی فاؤنڈیشن اور چند ایک دیگر برینڈز کے سہارے چھوڑنا انکی ایک مناپلی قائم کرنے کے مترادف ہے اور اس بات کے ہمارے سماج کو کافی نقصانات ہو رہے ہیں جن میں سے سب سے بڑا نقصان کثیر سرمائے کا وجود میں نا آنا ہے۔ ورنہ جتنی فضول خرچی کا رواج ہمارے کلچر میں ہے یہاں تھوڑی سی بھی معاشی بہتری آجائے تو یہ کلچر بہت پروان چڑھ سکتا ہے اور اس ضمن میں مزید محنت کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
اس کے لئے سٹارٹ اپس کو دوبارہ سے سبسڈیز دینے کے ساتھ ساتھ ان کو آسانیاں فراہم کرنا ضروری ہے۔ تین سو ملین کی مارکیٹ میں آپ کو ایک بھی بڑا گروسری کا برینڈ نظر نہیں آئے گا۔ جبکہ چھوٹے کریانہ سٹور اپنی اشیا کا معیار کم اور قیمت زیادہ رکھ کر انہیں بیچ رہے ہیں وہیں پر اگر ان چیزوں کی ویلیو ایڈیشن کی جائے اچھی پیکنگ کے ساتھ بڑے سکیل پر بیچا جائے تو جہاں یہ چیزیں سستی بکیں گی وہیں پر ان چیزوں کو بنانے والے مطلب کسان حضرات کے منافع میں بھی بہتری آئے گی اور ان کے دن بھی پھریں گے۔
ایسے ہی فن ٹیک اور ایڈ ٹیک میں بھی بہتری کی گنجائش باقی ہے۔ سب ٹرانزیکشنز کو ڈیجٹلائز کرنے اور ایجوکیشن کو ایپلی کیشنز کی طرف لانے کی کوشش کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ اگر آج کے پاکستان کو دو گھنٹے کی مسافت پہ موجود عرب ممالک سے موازنہ کرکے دیکھیں تو یہ بہت پیچھے نظر آتا ہے۔