Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaigham Qadeer/
  4. Pakistani Market Cheeni Ashiya

Pakistani Market Cheeni Ashiya

پاکستانی مارکیٹ چینی اشیاء

اپنے ملک میں کسی باہر کے ملک سے آنے والی اشیا کو اکثر ہوا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور بہت سے تجزیہ کار یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے دنیا سے پیچھے رہنے کی ایک بڑی وجہ دوسرے ممالک سے اشیا کو درامد کرنا ہے۔

اس ضمن میں سب سے زیادہ برا بھلا چین کو کہا جاتا ہے کہ چینی اشیاء نے پاکستانی مارکیٹ کو بٹھا دیا ہے، جبکہ حقیقت دیکھیں تو اس وقت چین کی دھاک پوری دنیا پہ بیٹھی ہوئی ہے۔ بھارت ہر سال چین سے بانوے ارب ڈالر کی اشیا منگوا رہا ہے، یورپ ہر سال چین سے چھ سو اٹھائیس ارب یورو کی اشیا منگوا رہا ہے، جبکہ امریکہ جس کو سب سپر پاور ماننتے ہیں وہ بھی چین سے سالانہ پانچ سو باسٹھ ڈالر تک کی اشیا اپنے ملک منگوا رہا ہے۔

اس کے بدلے میں یہ ممالک اس تجارت کا فقط بیس فیصد تک چین کو ایکسپورٹ کر رہے ہیں اور اس کے باوجود یہ سب جی 20 میں شامل ہیں۔

وہیں پر ہم چین سے فقط تئیس ارب کی اشیا منگوا رہے ہیں۔ جن میں مختلف پراڈکٹس شامل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے تاجر جو سب سے بڑا گلہ کرتے نظر آتے ہیں وہ یہ ہے کہ چین نے ہماری مارکیٹ خراب کر دی ہے۔ اس لئے ہماری معیشت ڈوب گئی ہے کاروبار اٹھ نہیں رہے ہیں۔

وہیں پر وہ ممالک جن کا چین سے تجارتی حجم ہم سے کئی گنا زیادہ ہے وہ اس گلے کا سہارا لئے بغیر دنیا کے مضبوط معاشی سہاروں پہ کھڑے نظر آتے ہیں۔

اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ ان کا اپنی لوکل ٹیکنالوجی کو پروان چڑھانا ہے۔ آپ کسی بھی یورپی ملک کو اٹھا لیں، کسی بھی امریکی ریاست کو اٹھا لیں یا کسی بھی بھارتی صوبے کو اٹھا لیں ہر کسی کے پاس اپنی خاص صنعت ہے۔ جس کو بیچ کر وہ مستحکم نظر آ رہا ہے۔

مثال کے طور پر، ہمارا سیالکوٹ ہے، اس شہر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پر ایکسپورٹ کوالٹی کا کھیلوں کا سامان بنتا ہے، جراحت کا سامان بنتا ہے یا پھر جیکٹوں کا سامان بنتا ہے۔

وہیں پر گجرات ہے تو یہ عالمی سطح پر فرنیچر فروخت کرتا ہے اور اس کے پاس کثیر تعداد میں ایسے لوگ ہیں، جو اربوں رپوں کا سرمایہ یورپ سے یہاں بھیج رہے ہیں۔ یہی مثال آپ گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ٹیکسیلا پر لاگو کر سکتے ہیں۔ لیکن اب ان گنتی کے شہروں سے نکل کر دوسرے شہروں کے نام لیتے ہیں۔ تقریبا نوے فیصد تک دوسرے شہروں میں کچھ ایسا خاص بن ہی نہیں رہا ہے جو بیچا جا سکتا ہو۔

گوجرانوالہ ڈویژن کے دوسرے شہروں کی پہچان یہاں کی زراعت تھی مگر ان کی زرعی پیدوار آج بھی بیس سال پہلے جتنی ہے۔ یہ علاقائی ضرورت بھی پورے کرنے سے قاصر ہیں۔

جنوبی پنجاب کے پاس کوئی خاص انفراسٹرکچر ہی نہیں ہے۔ کے پی اور بلوچستان کو تو لسٹ میں کوئی خاص انڈسٹری دینے کا سوچا ہی نہیں گیا ہے۔

بس ہر کچھ عرصہ بعد یہ خوشخبری سنا دی جاتی ہے کہ ہمارے پاس اتنے کھرب کا سونا ہے، چاندی ہے یا ایسا کچھ ہے مگر اس کو نکالنا کب ہے؟ یا عام پاکستانی مزدور کو وہاں کب اچھی تنخواہ پر نوکری ملے گی؟ اس کا کوئی جواب نہیں ملتا ہے۔

آپ آسٹریلیا کو لے لیں۔ ان کے پاس دنیا کے لیتھئیم کے 24% ذخائر ہیں۔ اب ان ذخائر کو نکالنے والے ایک کان کن کی تنخواہ چالیس ڈالر فی گھنٹہ جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ایک مزدور چالیس ڈالر ڈیڑھ ہفتوں میں مشکل سے کما پاتا ہے۔ یہی حساب زراعت کا ہے۔

یوکرائن جنگ میں ہے مگر یہ ابھی بھی گندم ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ اس گندم کی مالیت چھ ارب ڈالر ہے۔ جبکہ ان کا رقبہ ہم سے کم ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں، جو زمینی منرل کے نا ہونے کے باوجود بھی امیر ترین ممالک ہیں۔ جاپان کوئی سونا نہیں نکالتا، سنگاپور میں کوئی تیل نہیں ہے تائیوان گندم کا کاشتکار نہیں ہے۔

بلکہ ان ممالک نے اپنے ایک ایک شعبے پر فوکس کرکے اس کو بیچنا شروع کیا۔ اسی طرح چین ہے۔ چین کے پاس سب سے بڑا ایڈوانٹیج اس کی آبادی ہے۔ یہ آبادی بہت سستی لیبر ہے۔ جس کی وجہ سے یہ دنیا کی ہر چیز کم سے کم لاگت کیساتھ بنا رہے ہیں۔

اب وہ کم لاگت والی چیز دوسرے ممالک میں ایکسپورٹ ہو کر بکے گی ہی!

وہیں پر دوسرے ممالک اس چیز کا مقابلہ کم لاگت کی بجائے لوکل برینڈ اور کوالٹی کیساتھ کرتے ہیں۔ جیسا کہ یورپئین مارکیٹ ہے تو یہاں پر سب سبزیاں ان کی اپنی ہوتی ہیں اور زیادہ تر ممالک اپنے لوکل خوراک کے برینڈ، گاڑیاں اور ایسی موٹی موٹی اشیا استعمال کرتے ہیں اور کچھ ایسا بھی بنا رہے ہیں۔ جس کی پوری دنیا کو ضرورت ہے اور جس سے پیسہ ملک میں آ سکتا ہو۔

ہمارے ہاں ہر شخص کے پاس موٹرسائیکل ہے۔ لیکن کسی کے پاس بھی میڈ ان پاکستان موٹرسائیکل نہیں ہوگی، کیونکہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی نہیں ہے۔

اور یہی مسئلہ ہے کہ چین کی اشیا مارکیٹ کو خراب نہیں کر رہیں بلکہ اپنی مارکیٹ میں کسی شئے کا پیدا نا ہونا چین کی اشیا کو جگہ فراہم کرتا ہے۔

یہ خلا پر کرنا ہی وقت کی ضرورت ہے۔

Check Also

Batti On Karen

By Arif Anis Malik