Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Pakistani Aur Beroon e Mumalik Asatza

Pakistani Aur Beroon e Mumalik Asatza

پاکستانی اور بیرون ممالک اساتذہ

وہ معاشرے جو نسبتاً امیر ہوتے ہیں ان کی عادات و اطوار غریب معاشروں سے کافی مختلف ہوتی ہیں۔ میں اس وقت جس پراجیکٹ میں کام کر رہا ہوں اس میں مغربی معاشرے کی کام کی اخلاقیات سیکھنے کو مل رہی ہیں۔

عموما یونیورسٹی میں ہوتا یہ ہے کہ ایک سپروائزر ہوتا ہے اس کے نیچے پی ایچ ڈیز ہوتی ہیں اور ان پی ایچ ڈیز کے نیچے ماسٹرز کے سٹوڈنٹ اپنے دوسرے سمسٹر سے کام شروع کرتے ہیں۔

میں نے اپنے پہلے سمسٹر کے پانچویں یا چھٹے دن ایک پروفیسر کو ای میل کی کہ مجھے آپ کی لیبارٹری میں ہورہے کام میں دلچسپی ہے اور میں آلریڈی پاکستان میں دو ریسرچ لیبارٹریوں میں کام کر چکا ہوں۔ اگر آپ کے ہاں جگہ ہے تو میں انٹرویو کے لئے تیار ہوں۔

(پروفیشنل ای میل کے بارے میں پھر کبھی پوسٹ کرونگا)

یہ ای میل ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو بھیجی، اس نے اپنے نیچے موجود ایک ریسرچ سائنٹسٹ کو بھیجی اور اس نے میرا انٹرویو لیا اور سلیکٹ کر لیا۔

یوں ماسٹر پروگرام کے دوسرے ہفتے سے میرا کام شروع ہوگیا۔ اب مجھے امیونولوجی کی تکنیکیں سیکھنا تھی اور چونکہ میرا بیک گراؤنڈ بائیوکیمسٹری تھا تو مجھے نا ہی کیلکولیشن آتی ہیں اور نا ہی مجھے یہ تکنیکیں۔

اب شروع ہوتا ہے اگلے بندے کا امتحان، اب وہ بندہ اس سال اپنے ملک اور مشرقی یورپ میں موجود سب امیونولوجسٹ سائنسدانوں میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے اور اس کو اس سال دس ہزار یورو کا انعام ملا تھا۔ وہیں پر یہ میری کیوری فیلوشپ پر ہے اور نیدرلینڈ کی صف اول یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر چکا ہے۔

خیر، اس نے مجھے تو اپنی کسی کامیابی کا نہیں بتایا بس اتنا کہا کہ میں نے ماسٹرز اسی یونیورسٹی سے کیا ہے اور پی ایچ ڈی فلاں سے، اور اب تمہیں سکھاؤں گا۔

ہوتا یہ ہے کہ اس بندے کو مجھے سب کچھ سکھانے کے کوئی پیسے نہیں مل رہے، جبکہ اگر یہ سائنسدان کی بجائے ساتھ پروفیسر ہوتا تو اس کو پیسے ملتے، لیکن میری پروفائل دیکھ کر اس نے کہا کہ میں بغیر کسی انکم سپورٹ کے اس کی ٹریننگ کروا دونگا۔

اب ہر روز ہوتا یہ ہے کہ یہ بندہ مجھے بنیادی ریاضیاتی حساب کتاب جو کہ نویں کی کیمسٹری والا ہے مجھے سکھانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ مجھے ابھی تک dilutions بنانا نہیں آتی ہیں۔ اور وہ اس دوران پوری توجہ سے سب سمجھا رہا ہوتا ہے۔

وہیں پر کل یہ ہوا کہ میں اپنا لیپ ٹاپ لیکر آیا اور بری قسمت کہ یہ عین اس وقت ونڈوز اپ ڈیٹ پر لگ گیا جب وہ مجھے سافٹ وئیر سمجھانے لگا تھا۔ اب وہ اپنے کام کرنے چلا گیا۔ آدھے گھنٹے بعد میرے بلائے بغیر آیا اور پاس پڑے ڈیسک پر بیٹھ کر سمجھانے لگ پڑا۔

اس دوران وہ تھک گیا تو اچانک سے زمین پر بیٹھ گیا اور کرسی پر بیٹھے اپنے طالب علم یعنی کہ مجھے سمجھانے لگ پڑا۔

میں نے کہا کہ یہ عجیب لگ رہا ہے آپ کرسی پر آ جائیں تو کہنے لگا ایسے تکلف کی ضرورت نہیں میں کمفرٹیبل ہوں۔ خیر ضد کی تو پھر بیٹھ گیا۔ مگر مجھے پاکستان کی لیبارٹریوں کی خامیاں یاد آنے لگیں۔

ہمارے ہاں ماسٹرز کے طالب علموں کے ساتھ اپنے سپروائز کی انٹریکشن صرف تب ہوتی ہے جب اس نے ان کو جھڑکنا ہو۔ اور یہ شخص طالب علموں پر ایک جلاد بن کر بیٹھا ہوتا ہے جس کا کام بس رعب جمانا ہوتا ہے۔

میرے ایسے کئی دوست ہیں جو فقط اس وجہ سے ڈپریشن میں ہیں کہ ان کا سپروائزر انہیں تنگ کرتا ہے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتا ہے بلکہ ہر وقت غیرضروری کام کرواتا رہتا ہے۔ جبکہ یہاں کام الٹ ہے کام کی اخلاقیات اور ہیں اور لوگوں کی ترجیحات بھی۔

یہ لوگ کسی کو اپنا طالب علم بنانا فخر کی بات سمجھتے ہیں اور اس کو سکھانا ایک اعزاز، اور انہیں اپنا سو فیصد دینے سے غرض ہے۔ اب مجھے نہیں پتا کہ میں اس پراجیکٹ میں اپنی پرفارمنس قائم رکھ کر اپنی پوزیشن بنائے رکھتا ہوں یا نہیں۔ لیکن ایک بات کنفرم ہے کہ یہ شخص اپنے اچھے اخلاق اور برتاؤ کی وجہ سے ساری عمر میرے لئے قابل احترام رہے گا۔

اب یورپی یونین کی گرانٹ سے چلنے والے پراجیکٹس کے نتائج بھی انہیں چاہیے ہوتے ہیں اور وہ دینے پڑیں گے مطلب مجھے بھی اپنی طرف سے انہیں اتنا ہی واپس کرنا ہے جتنا وہ دے رہے ہیں۔ لیکن ایک سوال میرے ذہن میں رہ جاتا ہے کہ اگر آپ ایک بچے کو پڑھانا عذاب سمجھتے ہیں تو آپ استاد بنے ہی کیوں ہیں؟ آخر پاکستانی پروفیسر مجبوری کے تحت کیوں اپنی اور دوسروں کی زندگیاں ڈپریشن میں ڈالتے ہیں؟

یاد رہے کچھ دن پہلے ہی میرا بیسٹ فرینڈ بھی اسی ڈپریشن میں چلا گیا تھا کہ اس کے سپروائزر نے پاکستان سے امریکہ ہجرت کا سوچ لیا ہے اور اس کا ماسٹر ادھورا رہ جائے گا۔

مگر ایسا کیوں نہیں کہ یہ اچھا برتاؤ برت لیں؟

جبکہ یہاں پر حساب الٹ ہے، اگر آپ کسی ذہنی پریشانی میں ہیں تو اس دن آپ چھٹی کرتے ہیں اور کسی کو اپنی وجہ سے پریشان نہیں کرتے۔ ایک استاد کو استاد بننے پہ فخر ہے اور وہ فخر سے اپنے طالب علموں کو سکھاتا ہے۔

وہ بات واقعی سچ ہے علم بانٹنے سے بڑھتا ہے سانپ بن کر بیٹھ جانے سے دیمک لگ جاتی ہے۔

Check Also

Ikhlaqi Aloodgi

By Khalid Mahmood Faisal