O Levels Aur A Levels
او لیولز اور اے لیولز
کیا آپکو پتا ہے کہ ہر سال پاکستانی طلباء کیمبرج کو امتحانات کی مد میں 750 ملین روپے ادا کرتے ہیں۔ برٹش کونسل کے تحت منعقد ہونے والے ان امتحانات میں تقریباً سولہ ہز ار بچے بیٹھتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تعلیم یوکے کی ساتویں بڑی برامدی انڈسٹری ہے جس کی مالیت چودہ ارب پاؤنڈز ہے۔ ایک کتاب کے پرچے کے لئے برٹش کونسل پچس سے اٹھائس ہزار چارج کرتا ہے جبکہ مقامی ذریعہ تعلیم صرف گیارہ سو سے دو ہزار روپے لیتا ہے۔ لیکن کوالٹی آف ایجوکیشن میں کافی فرق آجاتا ہے۔
اگر بات کریں کوالٹی ایجوکیشن کی تو او لیولز اور اے لیولز روایتی طریقہ تعلیم سے حد درجہ اوپر ہیں۔ یہ نا صرف بچوں میں کریٹیکل تھنکنگ لاتے ہیں بلکہ ان کو نمبروں کی دوڑ کی بجاۓ لیڈرشپ اور کانسپٹس کی دوڑ کے پیچھے لگاتے ہیں۔ جبکہ روایتی میٹرک اور ایف ایس سی ایک بچے کو کوہلو کا بیل بنا دیتا ہے وہ بیل جو سارا دن نمبر لینے کی خاطر نوٹس رٹنے میں لگا رہتا ہے۔ یہ رٹو طوطے بورڈ ٹاپ کر لیتے ہیں لیکن آپ ان کو پانچ سال بعد کسی بھی کلیدی عہدے پہ نہیں دیکھیں گے۔
ایک بار کسی نمائندے نے ایک بچے کی والدہ سے پوچھا کہ آپ اپنے بچوں کو کیمبرج کا امتحان کیوں دلا رہی ہیں تو بدلے میں وہ کہنے لگی کہ "میں اپنے بچوں کو معاشرے میں راہنما بنتا دیکھنا چاہتی ہوں، غیرملکی طریقہ تعلیم بچوں میں لیڈرشپ پیدا کرتا ہے انہیں زر خرید غلام نہیں بناتا۔ "یاد رہے روایتی نظام تعلیم میں بچے کو نصاب سے ہٹ کر کچھ سوچنے کو ملتا ہی نہیں، وہ صرف نصابی کتب کو رٹنے میں لگا رہتا ہے اور زیادہ سے زیادہ نمبر بٹورنے کے چکروں میں رہتا ہے جبکہ کیمبرج میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
شائد اسی لئے ایلیٹ کلاس اور مڈل کلاس کے وہ والدین جو اپنے بچوں کو لکیر کا فقیر نہیں بنانا چاہتے وہ اپنے بچوں کو او لیولز اور اے لیولز کرواتے ہیں۔ میرے بہت سے دوست کیمبرج کر چکے ہیں۔ ان سے جب میری پہلی ملاقات ہوئی تھی تو میں ان کے سامنے ایک نالائق پانڈا سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھا۔ کیمبرج کے امتحانات دینے والے بچوں کی گریس ایک الگ ہی قسم کی ہے۔
جو والدین استطاعت رکھتے ہیں ان کو تو میں یہی مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے بچوں سے میٹرک، ایف ایس سی کروانے کی بجائے او، اے لیولز کروائیں۔ یہ ان کے لئے بہت فائدہ مند ہوگا۔ روایتی نظام تعلیم کافی رد و بدل کا متقاضی ہےجب تک یہ رد و بدل اور ترامیم نہیں ہو جاتی ہمیں اپنے بچوں کو ایک بہتر نعم البدل دینا ہوگا۔ یا روایتی نظام تعلیم میں رکھتے ہوئے نمبروں کی دوڑ کے پیچھے لگانے کی بجائے ان کو جدید فکر سے روشناس کروانا ہوگا۔