Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaigham Qadeer/
  4. Mutations (2)

Mutations (2)

میوٹیشنز (2)

لیکن حقیقی زندگی میں یہ وہ جاندار ہیں جو اپنے جسم میں دو طرح کے ڈی این اے رکھتے ہیں۔ یہ مظہر تب رونما ہوتا ہے جب کسی حاملہ کے اپنے خلئے بچے کے خلیئوں سے مل جاتے ہیں۔ یہ حالت مائیکر و کائی مریزم کہلاتی ہے۔ جبکہ ایک اور مظہر جس کا نام ٹوئن کائی مریزم ہے اس میں ماں کے پیٹ میں موجود جڑواں بچوں میں سے ایک بچہ مر جاتا ہے جبکہ دوسرا بچنے والا بچہ اپنے جڑواں کے کچھ خلئیے اپنے اندر سمو لیتا ہے۔

جبکہ تیسری قسم ٹیٹرا گیمی ٹِک کائی میریزم ہے جس میں دو سپرم ایک انڈے میں سمو جاتے ہیں اور نتیجتاََ ہونے والا بچہ دو طرح کا ڈی این اے رکھتا ہے۔ جبکہ چوتھی قسم میں ٹرانسپلانٹ کے نتیجے میں مصنوعی طور پہ یہ حالت دیکھنے میں آئی ہے۔ جسے آرٹی فیشل کائی میریزم کہا گیا ہے۔ یہ حالت کافی دل چسپ سی حالت ہے کیونکہ اس حالت میں بچے کی آنکھوں میں سے ایک آنکھ کا رنگ مختلف ہو سکتا ہے اور دوسری آنکھ کا رنگ مختلف۔

اسی طرح آدھے جسم کا رنگ اور، اور آدھے کا کوئی اور ہو سکتا ہے۔ اسی طرح بچہ مرد اور عورت دونوں کے جنسی اعضاء بیک وقت اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے۔ اسی طرح ان تمام پہلوؤں سے بھی زیادہ حیران کُن پہلو یہ بھی ہے کہ بچے کے خون کے خلیئے تک مختلف ہو سکتے ہیں۔ خون کے بارے میں مزے کا پہلو یہ ہے کہ کائی مرز کے خون کے گروپ دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ ایک خاتون کائی مر کے اندر اکسٹھ فیصد او بلڈ گروپ جبکہ انتالیس فیصد اے بلڈ گروپ بھی دیکھا گیا ہے۔

خون کے گروپ میں یہ تغیر مریض کو بہت سی بیماریوں کا آسان شکار بنا دیتا ہے کیونکہ دو طرح کاخون ہونے کے نتییجے میں مدافعتی نظام کافی کمزور ہو جاتا ہے جو کہ بیماریوں کو دعوت دینے والی بات ہی ہے۔ اسی طرح ایک ایسا مریض جو کسی دوسرے شخص کی ہڈی کا گودہ یا پھر بون میرو ٹرانسپلانٹ کرواتا ہے تو امکان ہے کہ اُس شخص میں جو خون پیدا ہوگا اُس میں اس ڈونر کا گروپ بھی شامل ہوگا۔

گلوکارہ ٹیلر موھل بھی ایک کائی میرک ہیں اور ان کی قسم ٹوئن کائی میری کی ہے جس میں انہوں نے اپنی ماں کی کوکھ میں اپنے جڑواں کے خلئیوں کو جذب کر لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ان کی آدھی جلد سفید اور آدھی جلد سُرخ رنگت کی بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک کیس میں ایک شخص اپنے بچے کی ولدیت ہی ثابت نا کر سکا کیونکہ اُس کے بچے کا آدھا ڈی این اے اپنے جڑواں سے حاصل شُدہ تھا۔ اسی طرح ایک ماں اسی طرح کے ٹیسٹ میں ناکام ہو گئی تھی۔

اس حالت کو درست کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ جن مریضوں کے دو خون کے گروپ ہوتے ہیں، جیسا کہ گلوکارہ ٹیلر موھل کے ہیں اُن کا دفاعی نظام خاصہ کمزور ہوتا ہے جس کے نتتیجے میں ان کو بیماریاں لگنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ڈی این اےہمارے وجود کی عمارت کا بنیادی عنصر ہے بس سمجھیں کہ ایک مٹی کا گھروندا ہے اگر ہم اس گھر سے مٹی نکال دیں تو گھر کا وجود مٹ جاتا ہے بالکل اسی طرح یہ ڈی این اے ہے جو ہمیں ہمارا وجود دیتا ہے۔

اور اس میں ذرا سی گڑبڑ ہمارے وجود کی عمارت کو کھوکھلا کرکے رکھ دیتی ہے۔ جیسا کہ کینسر ہے یا دوسری سینکڑوں بیماریاں، جیسا کہ ہرا خون۔ جی ہاں ہرے خون والا مریض بھی سامنے آیا تھا۔ ہمارے خون میں ہیمو گلوبن موجود ہوتی ہے جس کا کام آکسیجن کو جسم کے ہر حصے تک پہنچانا ہوتا ہے۔ یہ ہیموگلوبن اپنے مرکزے میں آئرن کا ایٹم رکھتی ہے، جبکہ اسی ہیموگلوبن جیسی ساخت پودوں میں موجود کلوروفل کی ہوتی ہے جس کے مرکزے میں صرف آئرن ایٹم نہیں ہوتا بلکہ اُس میں میگنیشیم کا ایٹم ہوتا ہے۔

باقی کی ساخت بالکل وہی ہوتی ہے۔ یہ سارا فرق ڈی این اے کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ جو ہمارے بلڈ سیلز میں ایسے عناصر بناتا ہے جن کے مرکزے میں آئرن ہوتا ہے جبکہ پودوں میں یہ میگنیشیم بنواتا ہے۔ سنہ دو ہزار سات میں کینیڈا میں ایک ایسا مریض سامنے آیا جس کا خون ہرے رنگ کا تھا، ڈاکٹر کافی حیران ہوئے بعد میں جب اس خون کا کیمیائی تجزیہ کیا گیا تو پتا چلا کہ اس شخص کے خون میں آئرن کی بجائے سلفر کا ایٹم موجود تھا اور یہی سلفر اُس کے خون کو سُرخ کی بجائے ہرا رنگ دے رہا تھا۔

مزید تحقیق پہ پتا چلا کہ وہ شخص مائیگرین کی ایک خاص دوائی بہت زیادہ مقدار میں لے رہا تھا جس کے نتیجے میں اُس دوائی میں موجود سلفر نے آہستہ آہستہ اُسکے خون میں جگہ بنانی شروع کردی تھی اور اب اُس کا خون ہرا ہو گیا تھا، بعد میں ڈاکٹروں نے اُسے وہ والی دوائی لینے سے روک دیا اور پانچ ہفتوں بعد دوبارہ تجزئیے پہ پتا چلا کہ اُس کا خون نارمل ہو چُکا ہے۔

یہ ساخت کس طرح بدلی اس کے جاننے کے لئے ایک سادہ سی مثال دوں گا کہ ہیموگلوبن ایک تالا ہے اور آئرن اس تالے کی چابی ہے جبکہ سلفر بھی آئرن جتنی لمبائی رکھنے والی چابی ہے اور چونکہ خون کے کمرے میں آئرن کی بجائے سلفر کی چابیوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی ان زیادہ تعداد کی چابیوں کی وجہ سے آئرن پسِ پُشت چلی گئی تھی جبکہ سلفر ہیمو گلوبن کے تالے میں لگ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے پورے ہیموگلوبن کی ساخت سلفو ہیمو گلوبن میں بدل گئی تھی۔

یہاں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ ساخت میں ذرا سا فرق ہی ہمیں ارتقاء کے ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ ٹاٹا باکس بائنڈنگ نامی پروٹین تمام جانداروں میں پائی جاتی ہے جو کہ ارتقاء کے بہت سے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت ہے۔ خیر ارتقاء ایک الگ موضوع ہے، لیکن یہی ہیموگلوبن والی ساخت پودوں میں بھی پائی جاتی ہے جس کے مرکزے میں صرف آئرن ایٹم نہیں ہوتا بلکہ اُس میں میگنیشیم کا ایٹم ہوتا ہے جو اُن کو سورج کی روشنی سے آکسیجن بنانے میں مدد دیتا ہے۔

یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں میوٹیشنز کہلاتی ہیں۔ اور عموماََ بیماریاں انہی تغیرات کی وجہ سے پھیلا کرتی ہیں۔ یہ تغیر کیسے ہوتے ہیں؟ ان کا ذکر پھر کبھی سہی، لیکن یہی تغیر ہمیں بیماریوں سے بچاتے بھی ہیں اور بیماریوں کا شکار بھی بناتے ہیں۔ یہ رحمت بھی ہیں اور زحمت بھی، یہ ہمیں روپ بھی دیتی ہیں اور بہروپ بھی۔

Check Also

Insaan Rizq Ko Dhoondte Hain

By Syed Mehdi Bukhari