Lithium Kya Hai?
لیتھیم کیا ہے؟
ریسائی سیالکوٹ سے محض 90 کلومیٹر دور ہے۔ وہیں پر سیالکوٹ کے آخری گاؤں جو بارڈر پر ہیں جیسا کہ مہیندر والی وغیرہ اگر وہاں سے یہ فاصلہ دیکھیں تو یہ محض چالیس کلومیٹر بنے گا۔ مگر ہم یہاں نہیں جا سکتے کیونکہ آگے باڑ ہیں اور یہ باڑ جموں کی وادی کو پاکستان سے الگ کرتی ہے۔ جموں اس وقت جیولوجیکل اسیسمنٹ G3 زون میں ہے۔
مطلب کہ یہاں پر معدنیات کی فراوانی ہے اور مقبوضہ حکومت یہاں پر مختلف معدنیات کی تلاش پہ لگی ہوئی ہے۔ حالیہ جیولوجیکل اسیسمنٹ کے بعد بھارتی سرکار کو جموں کی ریسائی تحصیل میں لیتھیم کے 5 سے 9 ملین ٹن بڑے ذخائر ملے ہیں۔ اور ان ذخائر کے ملنے کے ساتھ ہی بھارت لیتھیم کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔
لیتھیم کیا ہے؟
لیتھیم ایک منرل ہے جس کی آج سے سو سال پہلے صفر اہمیت تھی مگر آج یہ سب سے اہم منرل بن چکا ہے۔ اگر ہم کہیں کہ لیتھیم ایک سفید سونا ہے تو غلط نہیں کیونکہ اس کی وجہ سے ہماری ساری دنیا چل رہی ہے۔ آپ کے موبائل میں موجود بیٹری سے لیکر کار، جہاز اور ہر الیکٹرک چیز میں لیتھیم کی بیٹری استعمال ہوتی ہے۔ اور یہ لیتھیم زیر زمین ذخائر سے نکالی جاتی ہے۔ اس وقت لیتھیم کی پیداوار کا 90% شئیر تین ممالک کے پاس ہے جن میں سے 52% تک شئیر آسٹریلیا، 24 سے 5% چلی اور 13 سے 2% حصہ چین کا ہے جبکہ باقی کی دس فیصد پیداوار میں بڑے ممالک جیسا کہ ارجنٹائن 5 سے 6% اور برازیل 1 سے 4% شامل ہیں۔
اتنی کم جگہوں پہ اس لیتھیم کی موجودگی کی وجہ سے اس کی مانگ حد سے زیادہ ہے اور اس وقت ایک ٹن لیتھیم 54000 ڈالر کی ہے۔ لیتھیم کی یہ قیمت ایک سال میں 400% بڑھی ہے اور آگے مزید بڑھے گی۔ مطلب کہ سو ٹن لیتھیم کی پیداوار اتنی ہی مالیت کی ہوگی جتنی مالیت کے ڈالرز کے لئے ہم ہر سال آئی ایم ایف سے بھیک مانگتے ہیں۔ وہیں پر 5 سے 9 ملین ٹن لیتھیم کو اگر کیلکولیٹر سے کیلکولیٹ کریں تو صفر ختم ہو جائیں مگر ڈالر بڑھتے جائیں۔
مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ۔
بھارت کا ٹارگٹ ہے کہ یہ 2070 تک کاربن فری ریاست بن جائے اور اس وقت پوری دنیا میں لیتھیم کی شارٹیج ہے کیونکہ یہ الیکٹرک کاروں کی بیٹری کی پیداوار میں استعمال ہوتی ہے۔ اس وقت 75% کاریں فاسل فیولز مطلب پٹرول پہ چلتی ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی آلودگی بڑھ رہی ہے جس کو پوری دنیا کم کرنے کی طرف جا رہی ہے۔ اور اس کے لئے لیتھیم کا استعمال بڑھے گا۔ گو لیتھیم انسانی اور حیوانی صحت کے لئے تباہ کن ہے مگر یہ فقط تب ہی ہے جب اسے نگلا جائے ورنہ یہ ماحول کو ویسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
اب دنیا میں لیتھیم کے جو بڑے ذخائر ہیں وہ اوپر بتائے گئے ممالک کی بجائے بولیویا، چلی اور ارجنٹائن میں ہیں جبکہ چین کے بعد کل بھارت دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا تھا جو لیتھیم کے ذخائر رکھتا ہے۔ ان ذخائر کے ہونے کے باوجود اس کو الگ کرنا مطلب extract ایک کھٹن کام ہے جس میں کافی وقت اور جدید ٹیکنالوجی درکار ہوتی ہے۔ اب اگر بھارت لیتھیم کے بڑے پروڈیوسر ممالک سے یہ ٹیکنالوجی حاصل کر کے اس کو زمین سے لیتھیم ایکسٹریکٹ کرنے میں لگائے گا تو یہ آسٹریلیا کو بھی لیتھیم کی پیداوار میں پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے بڑا ملک بن سکتا ہے جو کہ الیکٹرک وہیکلز بنانے کے ساتھ ساتھ ملکی لیتھیم سے جدید سستی بیٹریاں بھی بنائے گا جس سے یہ وہیکلز نہایت سستے بنیں گے۔
اب بھارت جموں کے متنازعہ علاقے سے یہ لیتھیم نکال کر ایک امیر ترین ملک بنے گا کہ نہیں یہ ان کی صوابدید ہے مگر اگلے مہینے جموں و کشمیر میں جی 20 ممالک کے سربراہان کا دورہ بھارت کے انہی عزائم کی نشاندہی ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں کی جانیوالی ترقی دنیا کو دکھا کر اپنا سافٹ امیج بنانا چاہتا ہے۔ وہیں پر یہ لیتھیم بھارت کو ایک امیر ترین ملک بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرے گی۔
بھارت فقط جموں کی اس لیتھیم کی وجہ سے کھربوں ڈالر کما سکتا ہے اور نئی ٹیکنالوجی بیچ کر جو کھربوں مزید آنے ہیں وہ الگ ہیں۔ آنیوالے سالوں میں یہ لیتھیم بھارت کو الیکٹرک وہیکلز کی صنعت میں امریکہ اور چین کے برابر کھڑا کرے گی اور یہ باقی کی غریب دنیا سے بھارت کو کوسوں دور لے جائے گی۔