Khan, Aaj Ki Zarurat
خان، آج کی ضرورت
صبح بابا سے پوچھ رہا تھا کہ جماعت اسلامی کس طرف کھڑی ہے؟ تو انہوں نے بتایا فی الوقت تو حسب ِمعمول جماعت کسی کے ساتھ نہیں، لیکن ان کے مطابق جماعت کو اپوزیشن بلاک میں جانا چاہیے اور چلے جانا ہے۔ اس بات پہ بابا سے اختلاف تھا بابا بھی خان کےخلاف ہیں سو ہماری اس پر بات چلتی رہتی ہے۔ مگرمیرے خیال کے مطابق جماعت کو دوبارہ سے پی ٹی آئی کا اتحادی بن جانا چاہیے۔ کیوں؟
اس کیوں کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ سسٹم کو یکدم سے بدلنا کافی کھٹن کام ہے۔ سو سالوں میں شائد ایک ایسی انقلابی تحریک مشکل سے کامیاب ہوتی ہے جو سسٹم کو ایکدم سے بدل سکتی ہو۔ ورنہ سسٹم کے ہی کارندے اپنے ساتھ ملا کر اس کو ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔ خان کی بس ایک بات پہ زیادہ تر لوگوں کو اختلاف ہے کہ یہ سسٹم کے بندے لےکر سسٹم کو بدلنے نکل پڑا ہے حالانکہ خان صاحب کے ساتھ سسٹم کے چند جبکہ نئے چہرے کافی زیادہ ہیں۔
اور سسٹم کے جو لوگ ہیں وہ وہی ہیں جو نواز شریف، زرداری اور الطاف سے تنگ آ چکے تھے اور وہ بھی کچھ بدلنا چاہتے تھے۔ اب اگر نواز، زرداری ان کو پسند ہوتے تو یہ اسی کےساتھ رہتے، خان کے پاس نا آتے۔ ن لیگ کی ایک بات جس سے مجھے شدید ناپسندیدگی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کو کھانے کا برابر موقعہ دیتی ہے حتیٰ کہ احسن اقبال صاحب کو جب کھانے کا کوئی موقعہ نا ملا تو انہوں نے رشتہ داروں کی زمین سے مٹی اٹھانے کے ٹھیکے لیئے اور ان کو نوازا، اور پوری ن لیگ نے سسٹم کو ایسے ہی ڈنگ ٹپاو پہ چلایا ہے۔
جبکہ خان اس معاملے میں بولڈ لگا اور اب تک مجھے یہی لگا ہے کہ یہ کھانے نہیں دے رہا۔ (آپ کو لگ رہا ہو کہ کھا رہا ہے تو آپ کی رائے ہوگی)۔ اب یہ بات شائد آپ کو ہر بار عجیب لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر لیڈر ٹھیک ہو تو ٹیم کو مجبوراً ٹھیک ہونا پڑتا ہے۔ خان کےساتھ جو ٹیم بنی وہ بہت حد تک ٹھیک چل رہی ہے۔ اس حکومت پہ ماسوائے مہنگائی کے کوئی اور ایسا الزام نہیں ہے اور مہنگائی پوری دنیا میں ہو رہی ہے اس پہ اعتراض کرنا بنتا تو ہے لیکن دنیا دیکھ کر۔
مگر جماعت شروع سے جو غلطی کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کےساتھ سسٹم بدلنے کا سوچ رہی ہے جو کہ سسٹم میں آنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے۔ یہی جماعت کی ناکامی در ناکامی اور غیر مقبولیت کی وجہ ہے۔ وہیں جماعت کی بلنڈرز بھی کسی سے چھپی نہیں ہیں۔ اب ان کا اپوزیشن کےساتھ گزشتہ اتحاد بھی ایک بلنڈر تھا اور اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ عوام مفاہمت نہیں بولڈ پن مانگتی ہے مگر افسوس کےساتھ سراج الحق صاحب نے جماعت کا گراف اسی غلطی کی وجہ سے گرایا اور اس کو اٹھانا مشکل ہے۔
اس وقت نعیم الرحمان صاحب کے امیر جماعت بننے پہ کچھ تبدیلی آ سکتی ہے مگر ان کا امیر بننا مشکل ہے۔ ایسے میں جماعت کو حکومت کےساتھ کھڑا ہونا چاہیے یہ میری رائے ہے، اس سے اختلاف بنتا ہے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ خان کو اگلے الیکشن میں اس سے بھی زیادہ ووٹ ملنے والے ہیں۔ اپوزیشن کی درجن بھر جماعتیں مل کر بھی اتنے بندے نہیں اکھٹی کر سکتی جتنے خان کا ایک ٹویٹ کر سکتا ہے۔ اس کو سپورٹ کرنے سے جماعت کم سے کم سسٹم میں In ہو جائے گی اور اس کے بعد راہ بنانا آسان ہوگا۔
ایک بار بندہ سسٹم میں آ جائے تو سسٹم درست کرنا آسان ہوتا ہے۔ مگر اپوزیشن کے مربے کے ساتھ سسٹم میں In ہونے کی اگر جماعت نے کوشش کی تو یہ ایک نئی بلنڈر ہوگی سو میرے خیال سے ان کو اس سے بچنا چاہیے۔ لیکن مجھے ایسا ہوتا دِکھ نہیں رہا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جماعت اکیلی نا ہی اپوزیشن کا مقابلہ کر سکتی ہے اور نا ہی پی ٹی آئی کا، سو اس کو ایک چننا پڑے گا اور حسب ِمعمول جماعت کیلے سے پھسلتی ہی نظر آ رہی ہے۔
اللہ پاک استقامت دیں۔