Ghutan Ka Shikar Muashra
گھٹن کا شکار معاشرہ
ہمارا معاشرہ گھٹن کا شکار ہے۔ اب اردو کے اساتذہ کو دیکھ لیں۔ وہ ایک شعر میں جہاں عشق الٰہی کی فضیلت بیان کر رہے ہوتے ہیں تو وہیں دوسرے شعر کو دیکھ کر سٹپٹا جاتے ہیں۔ میر کی ایک غزل میٹرک میں ہماری پسندیدہ رہی ہے پسندیدہ ہو بھی کیوں نا؟ آخر ایک شعر عشق حقیقی کی بجائے مجازی پر مل گیا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اردو کے استاد محترم میر کی غزل کا پہلا شعر پڑھ کر عشق حقیقی کا فلسفہ بیان کر رہے تھے شعر تھا کہ
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
اب وہ بتا رہے تھے کہ شاعر دنیا کی بے سروسامانی سے گھبرا کر تنگ آ گیا ہے وہ اب جان چکا ہے کہ دنیا عارضی ہے دھوکے باز ہے وغیرہ وغیرہ، اب اگلا شعر کچھ یوں تھا کہ اس سے استاد محترم کی کانپیں حیاء سے ٹانگنے لگ پڑی تھی۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
اس شعر کو تو ہم جیسے مطالعے کے شوقین کیڑے نے میٹرک میں آنے سے پہلے ہی میٹرک کی کتب پڑھتے ہوئے ازبر یاد کر لیا تھا اور شعر سن کر بے ساختہ دل میں یہی الفاظ آئے کہ اب آیا نا زرافہ پہاڑ کے نیچے، زرافہ یوں کہ وہ استاد محترم سنگل پسلی "لمٹینگ" انسان تھے۔
مگر یہ کیا، استاد محترم اس شعر کو وعید کی طرف لے گئے تھے۔ وہ لب جن کو چوم کر خود کیساتھ ساتھ محبوبہ صاحبہ کے بھی ہاتھ کنپوانے تھے اس پر استاد محترم بولنے لگ پڑے کہ اس دنیا میں فحاشی کی وجہ یہ گلاب کی سی پنکھڑی ہے اور یہی وہ وجہ ہے کہ شاعر پہلے شعر میں دنیاوی زندگی کو سراب سمجھ بیٹھا ہے۔
بھئی اس تشریح سے پہلے ہمیں عشق حقیقی کو شاعری میں ڈالنے پر فقط اعتراض تھا مگر اب ذاتی دشمنی ہوگئی تھی۔ وہ پنکھڑی جو کھانے کا دل کرتا ہے اس کو سراب کہہ کر انہوں نے اچھا نہیں کیا۔
یہی وہ وجہ ہے کہ میں نے اردو کے پرچوں میں گائیڈ والی تشریح لکھنا ہی چھوڑ دی تھی۔
اگر میں اپنے اردو شاعری سے لگاؤ کی بات کروں تو وہ اتنا زیادہ ہے کہ اردو کے پرچے میں کبھی بھی کسی دوسرے شاعر کا شعر نقل نہیں کیا تھا بلکہ ہمیشہ کوشش کی تھی کہ خود سے شعر بنا کر لکھوں بھلے تشریح خدا سے عشق پر ہو لیکن اگلا شعر محبوبہ کے نام لکھنا ہمارا طرہ امتیاز رہا ہے اور خدا بھلا کرے چیکر کا اس نے بھی ہر بار اٹھاسی یا نوے نمبر ہی دئیے ہیں۔ اگر صحفے کالے کرنا آرٹ ہے تو اردو کے پرچے میں میں آرٹسٹ ہوا کرتا تھا۔
لیکن ہماری درسی کتب کی تشریحات میں شاعری کو یوں پیش کیا جاتا ہے جیسے بچے گوگل پلے سٹور سے ڈاؤنلوڈ کئے جاتے ہیں اور چونکہ انٹرنیٹ کی رفتار ون ایم بی ہوتی ہے اس لئے اتنی بڑی فائل کو ڈاؤنلوڈ ہونے میں نو ماہ لگ جاتے ہیں اور اس دوران شاعر اپنے وقت کو عشق الہیٰ میں سرف کرکے شاعری لکھنے پر لگا دیتا ہے۔
یہی ہمارے معاشرے میں گھٹن کی وجہ ہے خیر۔
ہم تو ٹھیرے بچپن سے ہی لبرل، اتنے لبرل کہ بہشتی زیور آٹھ سال کی عمر میں پڑھ ڈالی۔ تب کیا کیا محسوس ہوتا تھا لکھ نہیں سکتے پھر آپ نے کہنا ہے ضیغم آپ نے پوسٹ کے اوپر 18 پلس کیوں نہیں لکھا؟ اردو پہ ہی واپس آتے ہیں کہ ضیغم صاحب لبرل ٹھیرے مگر ان کو زندگی میں ایک سے بڑھ کر ایک مذہبی لوگ ملے ہیں۔ اب ہمارے اردو کے ایک اور ٹیچر کا واقعہ سن لیں۔
ان ٹیچر صاحب کے مطابق وہ ایک ایسا شعر سنانے لگے ہیں جس پر ہمارے کان لال ہوجائیں گے اور ہمیں وہ محسوس ہوگا جو شاعری سنتے کبھی نہیں ہوا تھا خیر وہ احساس گدگدی کا تو کبھی نہیں ہوگا یہ مجھے بھی پتا تھا۔ بہت کریز جاگا، شعر کیا تھا اس دن سے ہم نے شعر سننا ترک کر دئیے۔ وہ کہہ رہے تھے بہت ہی بولڈ شعر ہے ویسا ہے۔۔ اب تخیل میں وہی آ رہا ہے جو آپکے آ رہا ہوگا۔ مگر شعر یہ تھا کہ۔۔
کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا
تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ
اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو
اور بے تابی سے فرصت کے خزاں لمحوں میں
تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو
میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا
اب یہ شعر سن کر ہم تو دل میں کڑھ کر بولے کہ اس شعر میں کیا بولڈ ہے؟ عمر چھوٹی تھی مگر انفارمیشن پوری تھی سو دماغ نے یہ سوچتے ہوئے "شعر ریجیکٹڈ" کہا کہ یہ تو نارمل پروسیجر ہے جس کے تحت پیار چلتا ہے۔ اسی خار میں اردو کے ٹیچر کو "ال انفارمڈ" شوہر کہہ کر پوری غزل نا پڑھی۔ خیر اٹھارہ کا ہو کر غزل کا آخری شعر پڑھا تو خود کو "ال انفارمڈ" یوتھ کہہ کر مزید کوسا کہ تب غزل کیوں نا پڑھی تھی۔
یہی ال انفارمیشن کا دورہ چلتا رہا اور ہماری اردو شاعری سے خار بڑھتی گئی۔ یہ نہیں کہ ادب پسند نہیں تھا بلکہ یہ کہ اگر شاعر نے ساری باتیں عشق حقیقی کے زمرے میں ہی کرنی ہیں تو اس سے بہتر کسی اصلاحی کتاب کا مطالعہ ہے۔ ورنہ شعر پڑھ کر برے برے خیال گمراہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس آخری شعر کو پڑھ کر جو ذہن میں عکس بنتا ہے اس پر اردو کے ٹیچر نے وہیں چھڑیاں مارنی تھی جہاں پنکھڑی گلاب سی ہے کا سن کر ماری تھی اور وہ ہاتھ تو نہیں تھے۔
میں تیرے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا
تیری زُلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا
میں تیرے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا
کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا
کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا