Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Culture Ka Observer

Culture Ka Observer

کلچر کا آبزرور

آپ اکثر پڑھ کر مجھ پہ کڑھتے ہونگے کہ میں کسی دوسرے ملک کا کلچر بتاتے ہوئے اپنے کلچر کا کوئی نا کوئی نقص ضرور بتاتا ہوں۔ اپنے کلچر کی تعریف کی بجائے ایک دوسرے ملک کے کلچر کی تعریف کرتا ہوں۔

مگر کیوں؟ حالانکہ مجھے تو چاہیے کہ جہاں میں آیا ہوں وہاں کے کلچر کی خامیاں بتاؤں اور اپنے کلچر کی خوبیاں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ میں ابھی جس کلچر میں آیا ہوں وہاں میرا حصہ محض ایک شاہد یا پھر انگلش میں آبزرور کا ہے۔ میں اس کلچر کو بس دیکھ سکتا ہوں اور اس کی چیزوں کا پھر اپنے کلچر سے موازنہ کر سکتا ہوں اور پھر اپنے کلچر کی منفی چیزوں کی نشاندہی کر سکتا ہوں کیونکہ اپنے کلچر میں میرا حصہ ایک آبزرور کا نہیں بلکہ حصہ دار یا پھر کانٹریبیوٹر کا ہے۔

اب ہوتا یہ ہے کہ ہم جب بھی کسی دوسرے کلچر میں جاتے ہیں تو سب سے پہلی غلطی یہ کرتے ہیں کہ اس کو اپنی عینک سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عینک وہی ہوتی ہے جس کا بنیادی مقصد کسی دوسرے ملک کے کلچر کو دیکھنے سے زیادہ اس کو اپنے کلچر سے کم تر ثابت کرنا ہوتا ہے۔

اس کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ جہاں ہم بطور آبزرور محض دیکھ سکتے ہیں وہاں ہم ایک حصہ دار بن کر تبدیلیاں لانے کے خواہاں بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ جب میں یہاں آیا تو میرے والدین کا کہنا تھا پاکستانئی دوست بناؤ ورنہ تم بہت کچھ یاد کرو گے۔ اب میرا مسئلہ کہہ لیں یا اچھی بات کہ مجھے دوست بنانے میں مشکل نہیں آتی وہیں پر مجھے دوست بنانے کی جلدی نہیں ہوتی ہے۔ میں ہر طرح کے تجربات دیکھنے کا عادی ہوں۔

سو میں نے سوچا کہ اگر پاکستانی دوست بنائے تو ہر چیز پھر دیسی نظر سے ہی دیکھوں گا اور آخر میں وہی نظر آئے گا جو سب کو نظر آتا ہے۔ سو سب سے پہلے میں نے دوست دوسرے کلچرز کے بنائے۔ قسمت یہ کہ روم میٹ پولش تھا سو اس سے پولش کلچر ڈسکس ہوتا، کلاس فیلوز چین، عراق اور افریقہ اور دوسرے ممالک ہیں سو ان سے ان کا کلچر۔

ایسے میں بہت کچھ وہ سننے کو ملا جو کہ مجھے معلوم نہیں تھا اور وہ دیکھنے کو ملا جو دیکھا نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں وہ آنکھ رہی ہی نا جو دیسی دماغ کی ہوتی ہے۔

اس بات کا احساس تب ہوا جب رمضان میں مسجد جانا ہوا اور وہاں ویک اینڈز پہ افطاری کے وقت پاکستانی بھائیوں کی حرکتیں دیکھنے کو ملیں جب وہ کھانے والی چیز کی برائیاں بھی کرتے تھے اور کھا بھی رہے ہوتے تھے، انہیں ہر اس چیز سے مسئلہ ہو رہا تھا جو کہ بنیادی طور پر مسئلہ تھی ہی نہیں اور وہی دیسی عادتیں کہ "روٹی وچ نمک نئیں تے دو پلیٹاں ودھ چک لے پکھ نئیں مردی اینج"۔

سو یہ سب دیکھ کر اس بات پر یقین پختہ ہوگیا کہ ہمارے لوگ کہیں بھی چلے جائیں ہمارے ہی رہیں گے۔

وہیں پر کرنے والا کام یہ ہے کہ ہم یہاں کی اچھی باتیں دیکھیں اور پھر ان اچھی باتوں کو یا تو اپنی فیملی پر اپلائی کریں یا پھر اگر ہمیں چار لوگ جانتے ہیں تو ان کو بتائیں تاکہ وہ اپنی زندگیاں تھوڑا آپ ڈیٹ کر سکیں۔

وہیں پر میں یہاں کی منفی چیزیں بتانے لگ جاؤں تو اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ کوئی بھی نہیں، محض کچھ مذہبی لوگوں کی اناء کو تسکین ملے گی وہیں پر ہماری وہ سوسائٹی جہاں ہم ایک حصہ دار ہیں اس کا کچھ نہیں بہتر ہو سکے گا۔ سو اگر آپ بھی ایک آبزرور ہیں اور کسی ایک الگ سوسائٹی میں رہ رہے ہیں تو ان کی اچھی چیزیں نوٹ کریں۔ بری چیزیں اگنور کریں۔ کیونکہ آپ یہاں مشاہدہ کرنے آئے ہیں تبدیلی لانے نہیں سو مشاہدہ کرکے اپنی معلومات بڑھائیں اور اپنے اعزاء کو بتا کر ان کی زندگیوں میں سدھار لائیں۔

ورنہ پیسہ ہر کوئی کما سکتا ہے اور منفی باتیں ہزار مل جائیں گی۔ اگر اچھی بات نہیں مل رہی تو مسئلہ اس معاشرے میں نہیں آپ میں ہے اس کو ٹھیک کریں۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra