Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaigham Qadeer
  4. Bachpane Ke Qatil

Bachpane Ke Qatil

بچپنے کےقاتل

بچے کی تجسس اور سوالات کرنے کی صلاحیت ساڑھے تین سے چار سال تک سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بچہ اپنے والدین سے ایک دن میں اوسطاً تیس سے ستر سوالات پوچھتا ہے، وہ ظالم دن دیکھنے والا ہوتا ہے جب اسے سکول دھکیل دیا جاتا ہے اور وہاں اسے بس سننا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں اسے سوال کرنے نہیں دیا جاتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سوال کرنا ہی نہیں چاہتا۔ وہ سوالات اپنے ماں باپ کے سامنے ہی رکھنا چاہتا تھا۔

وہی اس کی پوری دنیا تھے اور انہی کےساتھ وہ سب سے زیادہ فرینک تھا۔ سکول کے اساتذہ والدین سے شکایت کرتے ہیں، والدین ڈاکٹر سے شکایت کرتے ہیں۔ وہ دن اور آنے والے سال، اس کے سوالات اور تجسس کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے، اور پھر اسے سماجی و ثقافتی برین واشنگ (cultural conditioning) کرکے ایک فرمانبردار اور مطیع شہری بنا دیا جاتا ہے، جسے پھر فکرِمعاش کاٹنے کو دوڑتی ہے، پھر اس نے اپنے بچے پیدا کرکے یہی کرنا ہوتا ہے۔

دین بھی یہی کہتا ہے کہ بچے کو سات سال تک نماز کانا کہو، سات سال تک بچہ ماں کے پاس رہے گا وہی اس کی درس گاہ ہوگی۔ ادھر بچے کے دُودھ کے دانت ٹوٹنا تو دُور مُکمل طور پہ اُگتے بھی نہیں اور ماں باپ اس کو سکول میں داخل کروا دیتے ہیں۔ بخدا یہ ظلمِ عظیم ہے۔ ہم اپنے بچوں کے بچپنے کے قاتل بن چکے ہیں۔ ایک بچہ اجنبی اُستانی یا استاد سے زیادہ اپنی ماں باپ اور بہن بھائیوں کےساتھ کھیل کود کر سِیکھتا ہے۔

اجنبی ماحول میں جا کر وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے اور اچھی طرح سے کچھ بھی پہلے جیسی انرجی کےساتھ نہیں سیکھ پاتا۔ ایک بچہ غیر زبان سے زیادہ اپنی مادری زبان میں سیکھتا ہے۔ کیونکہ یہ زبان وہ دن کے زیادہ تر حصے میں بولتا ہے، اس میں سوچتا ہے اور خواب تک اسی زبان میں دیکھتاہے۔ ایسے میں اُسے کسی اجنبی زبان میں کتابیں رٹوانا گدھے پہ کتابیں لادنے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔

وہ بچہ اے فار ایرو پلین تو سیکھ لیتا ہے لیکن یہ ایرو پلین کیسے اُڑتا ہے، کیوں اُڑتا ہے، کس لئے اُڑتا ہے؟ جیسے سوالات اس کے ذہن میں مُشکل سے ہی اُٹھیں گے کیونکہ وہ سوچتا تو مادری زبان میں ہے مگر اُسے ان پُٹ غیر ملکی زبان میں ملتا ہے جس میں وہ عبور تک نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں بھی ایک بچے کو بارہ سال تک مادری زبان میں تعلیم دینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

دین کی رُو سے بھی یہ غلط ہے مگر پھر بھی ہم بچوں کو غیر زبان میں پڑھا پڑھا کر ان کی تخلیقیت اور تجزیاتی مہارتوں کا قتل کررہے ہیں۔ جو کہ انتہائی غلط ہے۔

Check Also

Danish Ki Jeet, Bewaqoofi Ki Haar

By Asif Masood